Maktaba Wahhabi

625 - 924
ان کی اولاد جناب محمد لقمان سعید بھٹی، جناب محمد حسان سعید بھٹی اور بیٹی محترمہ قدیسہ سعید نے بھی ان کی خدمت کا خوب حق ادا کیا۔ اس خدمت کا اعتراف ممدوح محترم رحمہ اللہ اپنی خودنوشت ’’گزر گئی گزران‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں : ’’لاہور کے علاقہ ساندہ میں پانچ مرلے کے مکان میں ہم دو بھائی رہتے ہیں ۔ ایک مَیں اور ایک مجھ سے چھوٹا سعید احمد جو چار سال کی عمر میں میرے پاس لاہور آیا تھا۔ اس نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیا۔ آدھا مکان میرا ہے اور آدھا اس کا۔ بلکہ اگر صحیح طریقے سے حساب کیا جائے تو آدھے سے زیادہ اس کا ہے۔ زمین کی قیمت کے علاوہ اس کی تعمیر، پلستر اور بجلی، سوئی گیس وغیرہ کی وائرنگ وغیرہ سب اسی کے خرچ اور محنت سے ہوئی۔ اگر میرا کوئی حقیقی بیٹا ہوتا تو شاید میری اتنی خدمت نہ کر سکتا جو سعید اور اس کے بیوی بچوں نے کی… میری ڈانٹ بھی وہ برداشت نہ کر سکتا جو یہ کر رہے ہیں ۔‘‘(گزرگئی گزران، ص: ۴۶۰) جناب سعید احمد بھٹی بھی اپنے برادرِ اکبر کے احسان مند ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ان کی بھرپور سرپرستی کی اور انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ راقم کے نام لکھے گئے اپنے ایک مکتوب میں وہ لکھتے ہیں : ’’مجھ ناچیز پر ان کی شفقتیں بے پناہ رہیں ۔ ۱۹۵۳ء میں میری عمر چار سال تھی۔ اس وقت سے لے کر ان کی زندگی کی آخری سانسوں تک مجھے ان کا قرب حاصل رہا۔ میں انھیں بچپن ہی سے ’’ابو جی‘‘ کہتا آیا ہوں ۔ انھوں نے میری شادی کی۔ پھر میری اولاد کی شادی میں اپنا سایۂ شفقت قائم رکھا۔ میری اولاد انھیں ’’بڑے ابو جی‘‘ کہتی تھی۔ وہ بھی انھیں اپنے پوتے پوتیوں کا درجہ دیتے تھے اور اُن پر جان چھڑکتے تھے۔ میری اور میرے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ میں نے ساٹھ(۶۰)برس سے بھی زیادہ عرصہ ان کی رفاقت میں ایک ہی گھر میں گزارا۔ وہ واقعی بہت عظیم انسان تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے خاندان کے لیے محبت و شفقت کا بادل تھے اور تاحیات رحمت بن کر برستے رہے۔ وہ خود تو ابدی زندگی سے ہمکنار ہوگئے۔ لیکن میں اور میری فیملی ان کی جدائی میں اُداس ہیں ۔ ہم اللہ کی مشیت پر راضی ہیں کہ ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ [القرآن] جو نفس بھی اس جہاں میں آیا ہے، موت کا جام پی کر ہی رہے گا۔ بقول شاعر: غافل تجھے یہ گھڑیال دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ انھیں غریق رحمت کرے۔ جنت الفردوس کے باغ ان کی اُخروی زندگی کا ٹھکانا بنا دے ان پر ہمیشہ اپنے احسان و کرم کی بارش برسائے رکھے۔ آمین یا الٰہ العٰلمین۔‘‘ یہ چند سطور تھیں جو جناب سعید احمد بھٹی کے مکتوب سے لی گئی ہیں ۔ پورا خط یہاں درج نہیں کیا گیا۔ انھوں
Flag Counter