Maktaba Wahhabi

61 - 924
حضرت والد صاحب تو کوٹ کپورہ سے فیروز پور آگئے، لیکن میری ولادت رمضان ۱۳۶۳ھ، ۱۹۴۴ء میں کوٹ کپورہ میں ہی ہوئی اور عقیقہ بھی وہیں ہوا اور میرے عقیقے میں شریک وہ واحد شخصیت زندہ تھی۔ اب اس نہج سے دیکھا جائے تو میرا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے تعلق کس قدر قدیم اور گہرا تھا، لہٰذا میرے جذبات کی کیفیت یقینا ان کے نیاز مندوں سے مختلف ہونی چاہیے اور مختلف ہے۔ درمیان کے بعض ناخوش گوار حالات کے باوجود ہمارے گھر اور خاندان(ننھیال اور ددھیال)سے وہ خوب آشنا تھے، جن کی خیر خیریت وہ ہمیشہ دریافت کرتے رہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ اب تو ایک تذکرہ نگار اور خاکہ نویس کی حیثیت سے معروف ہو گئے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شہرت صرف ان کے ایک فن کی تھی۔ مولانا رحمہ اللہ درسِ نظامی کے ایک فاضل ہی نہ تھے، بلکہ ’’لکھو کے‘‘ میں درسِ نظامی کی تدریس بھی کرتے رہے۔ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں وہ بعض مضامین بھی لکھتے رہے اور مولانا ندوی رحمہ اللہ کے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں جانے کے بعد پھر ۱۵؍ سال تک ’’الاعتصام‘‘ کا اداریہ، جو درحقیقت ملک کے تازہ ترین سیاسی حالات کی تجزیہ نگاری ہوتی ہے، بھی لکھتے رہے۔ کتابوں پر تبصرے، آمدہ مضامین کی ترتیب و تدوین اور دنیا بھر کی خبروں کا واقعاتِ عالم کے نام سے انتخاب بھی ایک مستقل عنوان تھا۔ اس کے علاوہ جماعت کی تنظیم، اس کے سیاسی موقف اور قائدین کی تبلیغی و سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ جماعتی خبروں کا ایک مستقل صفحہ بھی ترتیب دیتے رہے ۔گویا صحافت کے سارے میدانوں کے وہ شہسوار تھے۔ صحافت کی مختلف اقسام ہوتی ہیں ، روزانہ، سہ روزہ، ہفتہ وار، ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ۔ ’’الاعتصام‘‘ ان کی ہفتہ روزہ صحافت کا آئینہ دار تھا، سہ روزہ ’’صحافت‘‘ کا تجربہ اُنھوں نے اپنے ذاتی جریدے ’’منہاج‘‘ پر کیا تھا اور ماہنامہ ’’المعارف‘‘ کی کئی سال تک اُنھوں نے کامیاب ادارت کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے، جس کی سب سے بڑی دلیل فہرست ابن ندیم، ارمغانِ حدیث اور پھر ریاض الصالحین کے تراجم ہیں ۔ ان کی شانِ تحقیق کے لیے برصغیر میں علمِ فقہ، برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش، اہلِ حدیث کی اولیات اور تیرہ صدیوں تک فقہائے ہند کا ۱۰ جلدوں میں تذکرہ ایسے شواہد ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ باقی رہی تذکار نویسی تو وہ ان کا ایک ایسا فن ہے جو پورے عالم پر آشکار ہے۔ خصوصاً ان کا مجموعہ ’’ ہفت اقلیم‘‘ ان کے شاہکار خاکے ہیں ، کیوں کہ وہ بات کہنا جانتے تھے۔ ان کا اسلوب اور طریقۂ اظہار سہلِ ممتنع کی ایک عمدہ مثال تھا۔ اور واقعتا: ان کی ’’کتابوں ‘‘ میں گلوں کی خوشبو ان کے لہجہ میں ادب کے تیور اکثر ہوتے تھے، لیکن کبھی کبھی ان کا قلم مورخ بھی بن جاتا تھا، لیکن بہت کم، اوریہ اس لیے کہ مذکور شخصیت کا کوئی پہلو اوجھل نہ رہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے دادا رحمہ اللہ نے ان کی دینی تربیت اس اخلاص و اہتمام سے کی کہ زندگی کے گردشِ ایام
Flag Counter