Maktaba Wahhabi

586 - 924
کے علمی و ادبی مقام کا بغور مطالعہ کرتا رہا۔ خط کتابت بھی رہی۔ انھوں نے ہمیشہ دعاؤں اور بے پناہ شفقتوں سے نوازا۔ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ میں ان کے مضامین اور تبصرے شائع ہوئے۔ وہ ہر شمارے کا مطالعہ فرماتے اور نہایت ہی مفید اور ضروری مشوروں سے نوازتے۔ مجھے اوائلِ تعلیم کے زمانے ہی سے تاریخ اہلِ حدیث و تذکار علمائے حدیث سے دلچسپی رہی ہے۔ مولانا مرحوم کی تجویز و حکم پر جنوبی پنجاب کی تاریخ اہلِ حدیث، رجالِ حدیث اور افکارِ اہلِ حدیث کو مرتب و مدون کرنا شروع کیا تھا اور اس سلسلے میں نصف کے قریب کتب تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ الحمد اللّٰہ ۔ انھوں نے اس خطہ ارضی کے رجالِ حدیث کے متعلق میرے لکھے گئے بعض مضامین کو اپنی بلند پایہ کتب میں شامل بھی کیا، بلکہ چند مقامات پر تو حوصلہ افزا کلمات بھی تحریر فرما دیے۔ ’’چمنستانِ حدیث‘‘ میں وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’برصغیر کے مختلف علاقوں میں بے شمار ایسے اصحابِ علم ہوں گے جو اپنے عہد کے رفیع المرتبت لوگ تھے اور ان کا دائرۂ عمل بے حد وسیع تھا۔ لیکن افسوس ہے ہم ان سے بہت سے بزرگوں کے نام اور کام سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اہلِ قلم کو کوشش کر کے ان بزرگانِ دین کے احوالِ زندگی منظرِ عام پر لانا چاہیے۔ ہمارے عزیز دوست حمید اللہ خان عزیز(ایڈیٹر ماہنامہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ احمد پور شرقیہ)مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے علاقے سے اس مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ(سابق ریاست)بہاول پور کے علما و صلحا کے حالات جمع کر رہے ہیں ۔ یہ اگرچہ بہت مشکل کام ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ استقلال اور عزم کے ساتھ اس کی تکمیل کے لیے کوشاں ہواجائے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی ہوگی، جس قدر بھی کام ہوسکے کرنا چاہیے۔ موجودہ دور کے علما بھی منزلِ بزرگی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، انھیں جہاں تک ممکن ہو، اپنے واقعاتِ حیات خود قلم بند کرنے چاہییں یا کسی سے لکھوانے کی سعی کرنا چاہیے، تاکہ آیندہ نسلیں ان سے مستفید ہو سکیں ۔ اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو تاریک منجمد ہو جائے گی اور لوگ اپنے اسلاف کے حالات سے بے خبر ہو جائیں گے۔ ہم مشہور علما کے حالات تو بار بار لکھتے ہیں ، لیکن غیر مشہور کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ ضروری ہے کہ اس طرف بھی عنانِ توجہ مبذول کی جائے۔‘‘(چمنستانِ حدیث، ص: ۱۴۷) مولانا سے مجھے متنوع حوالوں سے شرفِ نیاز حاصل تھی۔ وہ میرے علمی سفر کے راہنما تھے۔ آپ کی محبت اور شفقت نے میری زندگی پر بڑے گہرے نقوش ثبت کیے۔ اس لیے یادوں کا بے پناہ ہجوم میری راہ میں حائل ہے اور نوکِ قلم قرطاس کے دامن پر چلنے کے لیے بے تاب ہے۔ دماغ میں کئی واقعات کا ہجوم ہے۔ بے شمار شفقتیں ، لاتعداد عنایتیں ، دلچسپ چٹکلے اور پر لطف محفلیں ؛ ہر لمحہ ہی ناقابلِ فراموش ہے۔ ہر ادا انوکھی اور نرالی ہے۔۔۔ کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے، ان کے ساتھ بیتے وقت کا ایک ایک پل اس قابل ہے کہ اسے زینتِ قرطاس بنا کر علمی
Flag Counter