Maktaba Wahhabi

425 - 924
ہیں ، جہاں بہت سے خوش رنگ اور خوشبو دار پھولوں سے مصنف عالی وقار نے کئی ایک کیاریاں ترتیب دے ڈالی ہیں ۔ ’’گزر گئی گزران‘‘ سے ان شاء اللہ ملاقات بعد میں کرائیں گے۔ پیشِ نظر کتاب ’’گلستانِ حدیث‘‘ اس سلسلۂ زریں کی ایک اہم کڑی ہے جو برصغیر پاک و ہند کے علمائے اہلِ حدیث کی ہمہ جہت خدمات کے تعارف کے لیے محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے شروع کر رکھی تھی۔ بزمِ ارجمنداں ، نقوشِ عظمتِ رفتہ، دبستانِ حدیث، قافلۂ حدیث، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن اور کاروانِ سلف وغیرہ اسی سلسلے کی کتابیں ہیں ، جن کی روشنی سے ان شاء اللہ دلوں کی تاریکیاں دور ہوں گی، جماعت کو حیاتِ تازہ ملے گی اور ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کے کارنامے پڑھ کر پورے عزم و حوصلے سے میدانِ عمل میں قدم رکھے گی۔ ’’گلستانِ حدیث‘‘ چوراسی(۸۴)شخصیات کے تذکرے اور سوانحی خاکے پر مشتمل ہے، ان میں سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ کے ذکر سے پہلے چار بڑی شخصیات اور بزرگوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں نمایاں ترین نام شاہ محمد اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ کا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے میاں صاحب رحمہ اللہ کے بیس تلامذہ کی شخصیات کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے، جن میں مولانا سلامت اللہ جیراج پوری، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا عبدالسلام مبارکپوری اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی رحمہم اللہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں ۔ تلامذہ میاں صاحب رحمہ اللہ کے بعد مصنف نے چونتیس (۳۴) خدامِ حدیث کا تذکرہ کیا ہے، جو وفات پا چکے ہیں اور جن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔ اس ذیل میں انھوں نے مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی، مولانا عبدالجلیل سامرودی، مولانا عبیداللہ رحمانی، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہم اللہ کی شخصیات اور اُن کے علمی کارناموں کا تعارف کرایا ہے۔ آخر میں چھبیس ایسے خدامِ حدیث کا ذکر کیا ہے جو حیات ہیں اور جن کی ہمہ جہت خدمات کا فیض جاری وساری ہے، اس باب میں انھوں نے مولانا محمد اسرائیل ندوی سلفی، مولانا ارشادالحق اثری، مولانا احمد مجتبیٰ سلفی، ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی، مولانا عارف جاوید محمدی، حافظ زبیر علی زئی، مولانا اصغر علی امام مہدی، مولانا محمد انور محمد قاسم سلفی اور مولانا عبدالخالق مدنی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ مولانا غلام العلی قصوری رحمہ اللہ کے تذکرے میں انھوں نے ایک بڑی اہم بات لکھی ہے، میں اسے یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، تاکہ بعض دوسرے اہلِ علم کی بھی غلط فہمی دور ہو جائے۔ ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب(ڈائریکٹر سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور)نے اپنی کتاب ’’علوم الحدیث: فنی، فکری اور تاریخی مطالعہ‘‘ میں برصغیر میں منکرینِ حدیث کے پانچ مراکز بتاتے ہوئے علی گڑھ کو بھی انکارِ حدیث کا ایک مرکز قرار دے دیا۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ان کی تحریر کا نوٹس لیا اور پانچوں مراکز کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے خیال کی تردید فرمائی۔ علی گڑھ کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:
Flag Counter