Maktaba Wahhabi

424 - 924
ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور میں کئی سالوں تک حاصل رہی ہے اور ان کے کئی ایک علمی و تحقیقی کاموں کی تکمیل ان کے سامنے ہوئی ہے۔ ’’ارمغانِ حنیف‘‘ کا مطالعہ کریں تو پتا چلے گا کہ ایک فلسفی چائے خانے میں بھی علم و عرفان کے بیسیوں مسائل لطائف کی شکل میں بیان کر جاتا ہے۔ یوں تو صحبتیں ہر کسی کو میسر آتی ہیں ، لیکن ان سے خود کو فیض یاب کر لینا اور ان کے رنگ میں رنگ جانا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ان کی عالی مرتبت علما اور اصحابِ علم و فضل کی تربیت اور ان کی صحبتوں سے دامن مراد بھرنے کی توفیق بخشی اور وہ تاحیات پوری دنیا کو نصوصِ قرآن و حدیث سے مزین اور دلائلِ توحید و سنت سے آراستہ اپنی دل کش، خوب صورت اور معلومات سے بھرپور تحریروں سے مستفید فرماتے رہے۔ ان کی خونوشت سوانح ’’گزر گئی گزران‘‘ پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوا، ان کے معمولات روز و شب کتنے روشن اور تاب ناک ہیں ، کاش ہمیں بھی یہ کہنے کا اعزاز حاصل ہو جائے کہ روزانہ گھر سے نکلنے سے پہل قرآنِ پاک کی تلاوت ضرور کرتا ہوں اور نمازِ فجر باجماعت گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مسجد میں ادا ہوتی ہے۔ متعدد بچیوں کو انھوں نے قرآن کا ترجمہ پڑھایا ہے اور سیکڑوں اہلِ علم و فضل سے ان کے روابط دوستانہ اور ہمدردانہ رہے۔ آج توپڑھے لکھے لوگوں کا حال یہ ہے کہ ذراسی مقبولیت ملی نہیں کہ دماغ آسمان پر پہنچ گیا اور شب و روز اپنی قصیدہ خوانی ان کا وظیفۂ حیات بن گیا۔ یہیں سے علم کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور شیخی و تعلی شخصیت کو گہنا دیتی ہے۔ اس موڑ پر شیطان کے پھندے سے خود کو بچا لے جانا انھیں خوش نصیبوں کا مقدر ہے جنھوں نے تزکیہ و احسان کی منزلیں کسی کی راہنمائی میں طے کی ہوں ۔’’حکومتوں کا وظیفہ قطار میں کھڑے ہوکر وصول کرنے والے اپنے نبی کا بتایا ہوا وظیفہ بھول گئے ہیں ۔‘‘ یہ محض ایک جملہ نہیں ، بلکہ ہماری ملی تاریخ کا پورا المیہ اس میں سمٹ کر آگیا ہے۔ تجربات اور مشاہدات سے بھرپور یہ جملہ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرا کون کہہ سکتا ہے اور اوراد و وظائف میں تصوف کی بدعات کو فروغ اس لیے ملا کہ داعیانِ کتاب و سنت کی اپنی زندگیاں ان اوراد و اَذکار سے خالی ہو چکی ہیں ، جن سے احادیث کی کتابیں معمور ہیں ۔ کاش! ہمیں توفیق مل جائے کہ جس احسان و تزکیہ کا حوالہ دے کر اہلِ بدعت نے خلقِ خدا کو ہلاکت کے جوہڑ میں ڈبو دیا ہے، ہم اس کے چشمہ شیریں سے ملت کو حیاتِ تازہ عطا کرنے کے لیے کوئی انقلابی قدم اُٹھا سکیں ۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی خودنوشت سوانح بہت اہم کتاب ہے، ابھی تک ہندوستان سے اس کی اشاعت نہیں ہو سکی ہے، کاش! کوئی ناشر اسے بھی شائع کر دیتا، تاکہ یہاں کے اہلِ علم اس سے بھی استفادہ کر پاتے۔ بہرحال اس بات کو یہیں چھوڑ کر دل و دماغ کو معطر کرنے کے لیے ہم آپ کو ’’گلستانِ حدیث‘‘ میں لیے چلتے
Flag Counter