Maktaba Wahhabi

335 - 924
۱۹۸۳ء یا ۱۹۸۴ء کا ذکر ہے، پتا چلا کہ گیانی ذیل سنگھ ہندوستان کے صدر بن گئے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بتایا کہ ہمارا یار ’’صدر جمہوریہ ہندوستان‘‘ بن گیا ہے۔ دوسری دفعہ ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ ان کا ارادہ بن رہا ہے کہ گیانی جی کو خط لکھا جائے۔ یوں انھوں نے خط تحریر کیا ۔ان کے اس پہلے خط کو بذریعہ رجسٹری بھجوانے کی خدمت کا موقع مجھے ملا۔ ۳۰؍ جولائی ۱۹۸۴ء کو مولانا محمد حنیف ندوی صاحب رحمہ اللہ کے اعزاز میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے اس وقت کے ڈائریکٹر سراج منیر صاحب نے ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا۔ تقریب میں لاہور کے مختلف اہلِ قلم نے مولانا ندوی رحمہ اللہ کی علمی تگ و تاز کا خوبصورت انداز میں جائزہ لیا۔ اس تقریب میں بھی محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ شمولیت کا اعزاز ملا۔ بعد ازاں وقتاً فوقتاً لاہور آمد کے موقع پر مولانا کے حالات و واقعات پر چھپنے والی کتاب ’’ارمغانِ حنیف‘‘ کے مقالات پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد افضل صاحب تھے، جو اس وقت کے مرکزی وزیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد مولانا کی تحریریں جہاں بھی جس شمارے میں شائع ہوئیں ، باقاعدگی کے ساتھ پڑھیں ۔ کافی تحریریں میرے ذاتی ذخیرہ کتب میں محفوظ ہیں ۔ وقت گزرتا رہا، تاآنکہ ۱۹۹۶ء میں آپ نے اس وقت کے ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ ڈاکٹر رشید احمد جالندھری سے اختلافات کے باعث ۱۴؍ مارچ ۱۹۹۶ء کو ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ میرے دریافت کرنے پر اپنے ایک خط میں بتایا کہ انھوں نے ادارے کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ یہ خط ۱۴؍ مئی ۱۹۹۶ء کو میرے نام لکھا گیا تھا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے علاحدگی کے بعد بھٹی صاحب کو بے شمار خطوط وصول ہوئے۔ لوگوں نے ڈاکٹر رشید احمد جالندھری صاحب کی اس حرکت پر احتجاج کیا اور افسوس بھی کیا۔ ان خطوط میں سے مجھے مرحوم مشفق خواجہ کے الفاظ آج بھی کچھ اس طرح ذہن میں آتے ہیں کہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی قدر و منزلت آپ جیسی نابغۂ روزگار شخصیت اور وابستہ رہنے والی شخصیتوں کی وجہ سے تھی۔ اس وجہ سے آپ کی وقعت میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ یہ بات واقعی درست نکلی۔ اس کے بعد محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے قلم پکڑا، بے شمار کتابوں کے انبار لگا دیے، جو برصغیر پاک و ہند کی تاریخِ رجال کے متعلق ایک خوبصورت اضافہ ہیں ۔ اب کچھ ملاقاتوں کا تذکرہ کرتا ہوں ۔ جب بھی ملاقات ہوتی تو میں پوچھتا، جناب: اب کون سی کتاب زیرِ تصنیف ہے؟ شفقت فرما کر بتاتے: آج کل سید سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کے متعلق تحریر کر رہا ہوں ۔ بعد ازاں مختلف کتابوں کی تحریر کے موقع پر ان کی شفقت سے بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، قافلۂ حدیث، قصوری خاندان، میاں فضل حق اور ان کی خدمات، صوفی عبداللہ رحمہ اللہ ، میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ کے حالاتِ زندگی پر کتب شائع ہونے سے پہلے جستہ، جستہ مقامات کے
Flag Counter