Maktaba Wahhabi

320 - 924
مولانا مرحوم نے اس نشست میں اس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مولانا کی کبر سنی اور ضعفِ طبع کے پیشِ نظر کئی بار اٹھنا چاہا، مگر موصوف بازو سے پکڑ کر بٹھا لیتے تھے۔ مگر بالآخر میری گزارش کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی۔ جب میں اٹھا تو مرحوم بھی از راہِ شفقت اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے تشریف رکھنے کو کہا تو فرمایا کہ تکریمِ ضیف کے اجر سے محروم نہ کرو۔ پھر باہر گلی تک چل کر آئے۔ سر پر دستِ شفقت رکھا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر خیریت و عافیتِ دارین کی دعا فرمائی اور اپنے حق میں دعا کی درخواست کرنے لگے۔ ۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو میں نے فون کر کے اپنے مسودے کی کاٹ چھانٹ اور اصلاح کے بارے میں پوچھا تو مرحوم نے فرمایاکہ آپ کی تحریر اور اندازِ بیاں اس قدر معیاری اور مکمل ہے کہ میں بسیار کوشش کے باوجود اس میں کمی بیشی کرنے سے قاصر رہا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے کہا: میں نے آپ کے لائے ہوئے کیلے کے ساتھ ’’الف‘‘ لگا کر اکیلا کھایا۔ میں نے ادب سے پوچھا کہ حضرت کیلا اکیلا تھا یا آپ؟ تو قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا، بیٹا نہ کیلا اکیلا تھا نہ ہی میں ۔ اکیلا تو ہمارا خالق ہے اور یوں آخری جملے میں توحید کا درس دے گئے۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو مولانا صاحب رحمہ اللہ کی رحلت کی اچانک اور دلدوز خبر سن کر دلی صدمہ ہوا۔ اشکبار آنکھوں کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعائیں وردِ زباں بن گئیں ۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہٖ واعف عنہ۔ آمین
Flag Counter