Maktaba Wahhabi

319 - 924
پہلے فراہم کر دیتے تو میں اسے اپنی تصنیف ’’گلستانِ حدیث‘‘ میں شاملِ اشاعت کر لیتا۔‘‘ پھر پوچھا کہ عزیز میرے پاس آنے پر آپ کو کس چیز نے اُکسایا؟ اس پر میں نے انھیں مولانا ارشاد الحق اثری کے نام اپنے مرحوم والد صاحب کے لکھے ایک خط کی نقل دکھلائی، جس میں ایک تاریخی واقعہ کے علاوہ یہ بھی تحریر تھا کہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بھی مجھ سے تفصیلات کے لیے رابطہ فرمایا ہے۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہو گی کہ مولانا کی خواہش پر میں نے انھیں اس خط کی نقل دکھائی، تو انھوں نے بڑے انہماک سے خط پڑھا اور پھر کہنے لگے، عزیزم! یہ تو واقعی بہت بڑا واقعہ ہے اور پھر ان کے مطالبے پر میں نے اس خط کی ایک نقل انھیں فراہم کر دی۔ میں نے مولانا صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے والد صاحب رحمہ اللہ خاندانی تفاخر اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نظریے سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ یہ سن کر مرحوم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’عزیز اکابر کے کارہائے نمایاں کا ذکر معیوب نہیں ، جیسا کہ آپ کی تحریر سے بھی ظاہر ہے۔ سلاطینِ علم و عمل کی عظمت کا برائے پیروی تذکرہ مفید رہتا ہے۔ شاید ہماری نسلوں میں سے کوئی انھیں پڑھ کر ان جیسا بننے کی کوشش کرے اور جو کوشش کرتا ہے، ضرور پھل پاتا ہے۔‘‘ اس نشست میں انھوں نے فرمایا: ’’عزیز مولانا نور محمد ہاشمی تلمیذ رشید شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ سے لے کر اپنے والدِ گرامی پر آ کر آپ کا قلم رک کیوں گیا؟ اپنے بارے میں کیوں کچھ نہیں لکھا؟‘‘ میں عرض پرداز ہوا کہ اس کی وضاحت ایک یادگار واقعہ سے کرتا ہوں ۔ وہ یہ کہ ایک مرتبہ والدِ گرامی قدر نے کسی جگہ فرمایا تھا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی تصنیف نہ تھی۔ اس پر احناف نے چیں بجیں ہو کر کہا کہ آپ غلط کہتے ہیں ۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ کہا کہ نام بتاؤ تو بولے ’’مسند امام اعظم‘‘ یہ سن کر والد محترم مسکرا دیے اور فرمایا کہ ارے بھائی! عقل کے ناخن لو، اپنے آپ کو امام اعظم کہنا امام صاحب رحمہ اللہ کی علوِ شان ہے یا کسرِ شان؟ یہ سن کر انھوں نے شرم سے سر جھکا لیے۔ میری یہ گفتگو سن کر مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’واقعی یہ تو اپنے منہ میاں مٹھوبننے کے مترادف ہے۔‘‘ زمانہ طالب علمی میں بی۔ اے کی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس کا عنوان تھا:’ ’The Gift‘‘ جس میں مضمون نگار نے تحفہ دینے سے متعلق اہم اور مفید مشورے دیے تھے۔ مثلاً: (۱)۔ تحفہ اپنی اور جس کو دینا ہے، اس کی بساط کے مطابق ہو۔ (۲)۔ ایسا تحفہ دینا چاہیے، جس سے اگلے کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہو۔ (۳)۔ ایسا تحفہ ہو، جو صحت کے لیے مفید تر ہو، جیسا کہ پھول یا پھل وغیرہ۔ چنانچہ میں جب مولانا صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے گیا تو پھلوں کا تحفہ لے کر گیا۔ دیکھ کر بولے: یہ تکلف کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ خالص اجزا سے تیارشدہ خدائی حلوہ ہے۔ یہ سن کر موصوف خوب محظوظ ہوئے۔
Flag Counter