Maktaba Wahhabi

272 - 924
کو میں نے اطلاع کر دی ہے، جن دوستوں کے نمبر آپ کے پاس ہیں ، ان کو آپ اطلاع دے دیں ۔ پھر جامعہ کی مسجد میں اعلان کر دیا گیا تو حضرت شیخ الحدیث اسی وقت تشریف لے آئے، گلے مل کر رونے لگ گئے اور فرمانے لگے کہ جب اعلان کرنے والے نے یہ الفاظ کہے کہ ’’حضرات ایک ضروری اعلان سنیے‘‘ ابھی اس نے نام نہیں لیا تھا کہ میں سمجھ گیا کہ اعلان مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی وفات کا ہو گا۔ إنا اللّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ اب میں بار بار فون پر جنازے کے پروگرام وغیرہ کے متعلق معلوم کرتا ہوں اور ہر بار یہ سوچتا ہوں کہ دوسری طرف سے بھٹی صاحب کی شفقت بھری آواز آئے گی: ’’تُسی کِتھے او؟‘‘ لیکن وہ تو اب ایسے مقام پر جا چکے تھے کہ نہ وہ مجھ سے پوچھ سکتے تھے اور نہ ہی میں انھیں بتا سکتا تھا کہ میں کتھے آں ۔۔۔! شام کو جامعہ کے اساتذہ و طلبا دو بسوں کے ذریعے اپنے اس عظیم محسن کو الوداع کہنے کے لیے جڑانوالہ روانہ ہوئے۔ عشا کے بعد ڈھیسیاں میں ان کی نمازِ جنازہ کے بعد ایک جمِ غفیر ان کے دیدار کے لیے دھکم پیل کر رہا تھا۔ جب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا مطمئن خوبصورت چہرہ دیکھا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا تو میرا جی چاہا، میں آواز دوں : ’’بھٹی صاحب! تُسی کِتھّے چلّے او؟‘‘ لیکن مجھے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آیا: ﴿ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى ﴾ کہ فوت ہو جانے والے لوگوں کو آپ اپنی کوئی بات نہیں سنا سکتے، ہاں اللہ تعالیٰ جو چاہے سنا دے، یہ اس کی مرضی ہے، کیوں کہ وہ سنانے کی قدرت رکھتا ہے، کوئی قانون و ضابطہ نہیں ۔ رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے کا وقت ہو گا کہ ہم علم و عمل کے اس پہاڑ اور محبت و شفقت کے مجسمے، اہلِ حدیث جماعت کے محسن اور برصغیر کی تقریباً ایک صدی کی تاریخ کے چشم دید گواہ اور اپنی درجنوں کتب اور ہزاروں مضامین میں مرحومین کے لیے بخشش اور موجودین کے لیے صحت و سلامتی کی پُرخلوص دعائیں کرنے والی عظیم بزرگ ترین ہستی کو منوں مٹی تلے دفنا کر دعا کر رہے تھے۔ اللہم اغفرلہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ و أدخلہ جنۃ الفردوس۔ آمین
Flag Counter