Maktaba Wahhabi

271 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اس انداز سے خوبصورت زندگی گزاری ہے کہ بچے، بوڑھے اور جوان بلا تفریق ان سے محبت کرتے تھے، ان سے تعلق اور وابستگی کو اپنی سعادت سمجھتے تھے، حتی کہ اگر کسی کو ان کے ساتھ چارپائی، صوفے یا ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو وہ پھولے نہیں سماتا تھا۔ اس کی بڑی اور واحد وجہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی عاجزی و انکساری اور عوامی زندگی تھی کہ جہاں کسی قسم کا کوئی تکلف نہ تھا، نہ رہن سہن میں نہ کھانے پینے اور گفتگو ہی میں ۔ ماضی قریب میں شہیدِ اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے بعد اگر کسی کو محبتِ عامہ حاصل ہوئی تو وہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہیں ۔ ان کی بے تکلفی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے ملنے والا ہر بچہ و جوان ان کی شفقت و نرمی کی بنا پر یہی سمجھتا تھا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سب سے زیادہ مجھ ہی سے محبت کرتے ہیں ۔ ہفتے دس دن میں راقم سے فون پر رابطہ ہو جاتا اور مہینے میں ایک آدھ ملاقات بھی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو جب بھی فون کیا تو سلام کے جواب کے بعد ان کا پہلا سوال ہوتا تھا: ’’تُسی کِتھے او؟‘‘، اور اگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ فون کرتے تو نام لے کر کہتے ’’… تُسی کِتھے او؟‘‘ ۲۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو دوپہر کے وقت محترم سعید احمد بھٹی صاحب کا فون آیا کہ حضرت بھٹی صاحب بیمار ہیں ، ان کے لیے دعا کرنا۔ عصر کی نماز کے وقت میں نے حضرت شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ کو اطلاع دی اور دعا کے لیے عرض کیا تو حضرت شیخ صاحب نے نماز کے بعد نام لے کر بڑی لمبی دعا کی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سردی کے موسم میں بہت احتیاط کرتے تھے، لیکن کچھ سالوں سے ان کی ٹانگ میں درد ہو جاتا تھا۔ میں نے اس بیماری کو معمولی موسمی اثرات پر محمول کیا، لیکن شام کو جب میں نے دوبارہ فون کر کے خیریت معلوم کی تو تشویش ناک صورتحال سامنے آئی، اگرچہ محترم سعید احمدبھٹی صاحب مسلسل تسلی دیتے رہے اور لاہور آنے سے منع کرتے رہے کہ ڈاکٹر حضرات علاج کر رہے ہیں ، اس لیے آپ انتظار کریں ، ممکن ہے آپ ہسپتال آئیں ، لیکن آپ کی ملاقات نہ ہو۔ اسی طرح رات ۲ بجے تک میں لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال سے آگاہی حاصل کرتا رہا۔ رات ۱۲ بجے کے بعد تو عزیز القدر حافظ حسان سعید بھٹی نے کہنا شروع کیا کہ اب حالت بہت بہتر ہے، احباب کی دعائیں رنگ لائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے صحت دے دی ہے۔ ۲۲؍ دسمبر کو جامعہ سلفیہ میں ۲ اہم تقریبات تھیں ، میں نے خیال کیا کہ چلو اب طبیعت تو بہتر ہے، پروگرام سے فارغ ہو کر زیارت کے لیے حاضر ہوں گا لیکن۔ …آہ… فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ابھی اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے کوئی آدھ رکوع ہی قرآنِ مجید کی تلاوت کی تھی کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے نمبر سے فون آیا۔ فوری طور پر میرے دل میں خیال آیا کہ سعید احمد بھٹی صاحب کا فون ہوگا، وہ دعا کا کہیں گے، لیکن جونہی فون آن کیا، محترم سعید صاحب نے روتے ہوئے بتایا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ إنا اللّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ چنانچہ فوری طور پر مولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب کو اطلاع دی اور گزارش کی کہ فلاں فلاں صاحب
Flag Counter