Maktaba Wahhabi

250 - 924
لکھی، جو مختلف جرائد میں چھپی۔[1] ایک دن مجھ سے کہنے لگے، ایک نئی دینی جماعت بن رہی ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی کا دستور بڑا بہترین ہے، وہ مجھے لادو تو پھر میں نے دستور کی پانچ کاپیاں انھیں دے دیں ۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ جماعت اسلامی کو مولانا مودودی رحمہ اللہ جیسا امیر نہیں ملے گا جو تقریریں بھی کرتے تھے، کتابیں بھی لکھیں ، تفسیر بھی لکھی، جماعت کو بھی چلایا، سیاست میں بھی حصہ لیا۔ علمائے کرام سے بھی تعلقات رکھے۔ وہ بڑے وسیع القلب انسان تھے۔ یہی ان کی عظمت تھی۔ میں اکثر ان سے کہتا تھا کہ ’’اسحاق نامہ‘‘ کب آئے گا تو وہ کہنے لگے: پہلے ’’شہاب نامہ‘‘ آیا، پھر ’’طفیل نامہ‘‘ آیا، اس لیے آپ یہ کہہ رہے ہیں ۔آپا مریم جمیلہ رحمہ اللہ اور مولانا عبدالوکیل علوی رحمہ اللہ پر جو مضامین لکھے، ان میں میرا بھی تذکرہ کیا۔ آہ! مولانا عبدالوکیل علوی رحمہ اللہ بھی اب ہم میں نہیں رہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ مولانا اسحاق صاحب رحمہ اللہ نے بہت سی کتب تحریر فرمائیں ۔ چند یہ ہیں : نقوشِ عظمتِ رفتہ، کاروانِ سلف، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ وغیرہ۔ وہ مورخ اہلِ حدیث تھے اور مورخ جماعتِ اسلامی بھی تھے، جس کا تذکرہ انھوں نے اپنی کتاب ’’ ہفت اقلیم‘‘ میں کیا، اختلاف بھی کیا اور اعتراف بھی کیا۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے دور میں مجلسِ شوریٰ میں ان کی رائے کے خلاف فیصلے ہوئے۔ پھر بھی انھوں نے اس اختلاف کو قبول کیا۔ مولانا عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ جماعت اسلامی سے علاحدہ ہوئے تو ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے اجلاس میں جو فیصلے ہوئے تھے، وہ دوسرے اجلاس میں اس پر عمل درآمد کا تقاضا کر رہے تھے تو ایک بندے نے تنگ آکر انھیں غیر مناسب الفاظ کہے، تو مولانا عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ کے الفاظ تھے کہ وہ مولانا مودودی رحمہ اللہ ہی تھے جو ہمیں برداشت کرتے تھے۔ یہی خوبی مولانا مودودی رحمہ اللہ کی عظمت کی نشانی تھی۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ اب ہم میں نہیں رہے مگر وہ میرے جیسے ہزاروں دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Flag Counter