Maktaba Wahhabi

249 - 924
ہے کہ وہ بزرگ ہیں ، ان سے میں خود ملنے جاؤں گا۔ ممتاز اسکالر پروفیسر ظفر حجازی صاحب ہمیشہ اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا احترام کرتے اور میری جب بھی ملاقات ہوئی تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا احوال ضرور پوچھتے اور ہمیشہ کہتے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی باتیں بہت قیمتی ہیں ، ان کو نوٹ کر لیا کرو۔ وفات سے چند دن پہلے تک پروفیسر محمد ایوب منیر کی شدید خواہش تھی کہ ان کے ساتھ ناشتے پر ایک نشست رکھی جائے، مگر انھوں نے کہا کہ کچھ تصنیفی کام کر رہا ہوں ، اس لیے کچھ دن بعد رکھ لینا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اکثر کہا کرتے تھے، تم نے مجھے زیادہ مشہور کر دیا ہے تو میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں تو میں آپ کی خوبیوں کا تذکرہ لوگوں سے کیوں نہ کروں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے عبدالوکیل علوی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت اور ان کے علمی کام پر تفصیلی مضمون لکھ دیا ہے۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، مولانا نصراللہ خان عزیز، نعیم صدیقی اور عبدالحمید صدیقی حفظہ اللہ سے ان کی بہت زیادہ یادیں وابستہ تھیں ۔ ایک واقعہ جو انھوں نے مجھے سنایا کہ عبدالحمید صدیقی مرحوم ’’ترجمان القرآن‘‘ کے لیے ’’اشارات‘‘ لکھ چکے تھے، انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت آگئی۔ وہ تمام ’’اشارات‘‘ بھٹو مرحوم کے خلاف تھے۔ صدیقی صاحب رحمہ اللہ اسحاق صاحب رحمہ اللہ کا پنجاب پبلک لائبریری میں انتظار کر رہے تھے ۔جب اسحاق صاحب رحمہ اللہ تشریف لائے تو صدیقی صاحب رحمہ اللہ نے کہا: میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ ’’اشارات‘‘ میں نے لکھ دیے ہیں اور بھٹو صاحب کی حکومت آ گئی ہے۔ مجھے آپ پر اعتماد ہے، ان میں جو صفحات نکالنے ہیں ، وہ نکال دیں ، باقی میں برائے اشاعت بھیج دوں گا۔ تو اسحاق صاحب رحمہ اللہ نے پڑھنے کے بعد کہا: یہ ۱۳ صفحات میں سے ۸ صحیح ہیں ، باقی ٹھیک نہیں ہیں ۔ پھر مجھے کہنے لگے: تمھارے بزرگ مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے۔ اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے وہ واقعہ بھی مجھے سنایا، جب جوش ملیح آبادی رحمہ اللہ لاہور احسان دانش صاحب رحمہ اللہ کے گھر آئے اور آکر کہا کہ کسی کو پتا ہے: ’’مودودی صاحب رحمہ اللہ کے گھر کا۔‘‘ تواسحاق صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہے تو جوش صاحب رحمہ اللہ کو لے کرمولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کو کہاکہ آپ بہت بوڑھے ہو گئے۔ حیدر آباد میں تو آپ بڑے جوان تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مجھے بتایا۔ جب جوش صاحب رحمہ اللہ لاہور میں اپنی کتاب’’یادوں کی برات‘‘ چھپوانے کے لیے ایک ادارے کے سربراہ کے پاس گئے، انھوں نے جوش صاحب رحمہ اللہ کو کہا کہ یا تو آپ کی کتاب چلے گی یا ہمارا ادارہ چلے گا۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بتایا کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے مجھے آخری ایام میں کسی کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ آپ کو یاد فرما رہے ہیں ۔ کہتے ہیں : میں ملاقات کے لیے تو نہ جا سکا، البتہ نمازِ جنازہ میں شریک ہوا۔ میاں طفیل محمد صاحب رحمہ اللہ کی نمازِ جنازہ میں بھی شریک ہوئے اور بعد میں آپا مریم جمیلہ رحمہ اللہ پر ایک تحریر بھی
Flag Counter