Maktaba Wahhabi

243 - 924
مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے اس عظیم انسان کا وہ کمرہ دیکھا جہاں وہ بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے اور ان کا قلم تاریخ کو دوام بخشتا تھا۔ مجھے وہ گھر دیکھنے کی بھی سعادت حاصل ہے، جس میں اس سادگی کے پیکر مردِ درویش نے ساری زندگی بِتائی تھی۔ مجھے اس بات پر بھی فخرہے کہ میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے گھر کھانا کھایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ماہنامہ ’’علم و آگہی‘‘ کی ادارت میرے ذمے تھی اور مولانا رمضان یوسف سلفی کی ہمراہی میں انٹرویو کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ یہی وہ انٹرویو ہے جس کے متعلق ’’گزر گئی گزران‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میرا طویل ترین انٹرویو وہ ہے، جو ماہنامہ ’’علم و آگہی‘‘ میں شائع ہوا ہے۔‘‘ یہی وہ موقع تھا، جب میں نے مکتبہ طارق اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے چھپنے والی ان کی کتاب ’’ارمغانِ حدیث‘‘ اپنے ہاتھوں انھیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی، جس کی مکمل تیاری بھی میرے ہاتھوں ہوئی تھی۔ ’’گزر گئی گزران‘‘ جب چھپ کر میدان میں آئی تو اسے بالاستیعاب پڑھا۔ بہت سی اخلاقی اقدار سیکھیں اور زندگی گزارنے کے بہت سے قرینے سمجھ آئے۔ کئی مندرجات پر تو بے اختیار ہنسی بھی آئی تھی، مگر اب ان کی وفات کے بعد جب وہی مندرجات پڑھے تو دل بھر بھر آیا، کیوں کہ اب حیثیت بدل چکی تھی۔ حال، ماضی ہو چکا تھا۔ ہاں اپنوں کے سفرِ رفت کی یادیں رنجیدہ کیا ہی کرتی ہیں ۔ دنیا کا چلن ہے کہ جن سے محبت ہو، ان کی یادوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ہسپتال، یونیورسٹیاں اور عمارتیں منسوب کی جاتی ہیں ۔ تاج محل تعمیر کیے جاتے ہیں ۔ لوگ تو اداکاروں کے مومی مجسمے بنا کر عجائب گھروں میں سجا دیتے ہیں ۔ میری استدعا ہے اہلِ جماعت سے کہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے منسوب لائبریریاں قائم کی جائیں ۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جن عظیم ہستیوں کے تذکار انھوں نے محفوظ کیے ہیں ، ان سے منتخب سلیبس تیار کرکے مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے اور اداروں کی سطح پر ایسے رجالِ کار تیار کیے جائیں ، جو مرحوم کے مشن کو جاری رکھیں ۔ آپ کے نام سے منسوب آپ کی خدمات کے اعتراف میں سیمینار منعقد کیے جانے چاہییں ۔ مجلات کی خصوصی اشاعتیں شائع ہونی چاہییں ۔ مَیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جناب برادر مکرم حمیداللہ خان عزیز کو کہ جنھوں نے بھٹی صاحب مرحوم سے منسوب خصوصی ’’ارمغان‘‘ کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ شائقینِ علم و ادب کے لیے بھٹی صاحب مرحوم کے رشحاتِ قلم کی مختصر تفصیل: (1)۔ سب سے پہلے بھٹی صاحب مرحوم نے محمد بن اسحاق بن ندیم وراق بغدادی(متوفی ۳۹۱ھ)کی کتاب الفہرست کا اردو ترجمہ کیا اور حل طلب مقامات پر حواشی لکھے۔ اشاریہ سمیت یہ کتاب ۹۱۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ (2)۔ برصغیر میں علمِ فقہ: صفحات ۴۰۰، اپنے موضوع پر اوّلین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ (3)۔ برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش: برصغیر میں تشریف لانے والے پچیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ۴۲ تابعین رحمہم اللہ اور
Flag Counter