Maktaba Wahhabi

235 - 924
مجھے فوراً فون کیا۔ یہ تھا اپنے عقیدت مندوں کے لیے ان کا اندازِ محبت و شفقت۔ کیا ایسی صفات کے حامل لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں ؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ! ان کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ جو شخص ان سے ایک مرتبہ ملاقات کر لیتا یا جس سے وہ لِقا کر لیتے تو اسے یاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کا حافظہ بڑا زبردست تھا۔ دوسری اور اصل وجہ یہ تھی کہ وہ وضع دار اور رکھ رکھاؤ والے عالمِ دین تھے اور تعلق بنانے اور نبھانے کے فن سے بہ خوبی آگاہ تھے، خاص طور سے پڑھنے لکھنے والوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کی مسلسل راہنمائی کرتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میرے ایک دوست ہیں حافظ قمر حسن۔ ’’مریدکے‘‘ شہر میں جامعہ عربیہ اہلِ حدیث کے قریب رہایش پذیر ہیں ۔ ہم نے ۲۰۰۲ء میں ’’جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ‘‘(مریدکے ضلع شیخوپورہ)سے اکٹھے سندِ فراغ حاصل کی۔ کچھ عرصہ اپنی مادرِ علمی میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد وہ ’’دار السلام‘‘ لاہور سے منسلک ہو گئے۔ ’’زندگی سے لطف اٹھائیے‘‘ اور ’’ملکۂ عالیہ‘‘ انہی کے قلم سے نکلے ہوئے شاہکار تراجم ہیں ۔ اُردو زبان و ادب کے بارے میں قمر حسن کے چند مضامین ماہنامہ ’’ضیائے حدیث‘‘ لاہور میں شائع ہوئے۔ ایک مرتبہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ مریدکے شہر میں تشریف لے گئے۔ محترم قمر حسن کو علم ہوا تو وہ بھی ان کو ملنے کے لیے گئے اور مصافحہ کر کے بیٹھ گئے۔ جب انھیں پتا چلا کہ اس نوجوان کا نام قمر حسن ہے تو وہ دفعتاً کھڑے ہو گئے۔ اسے بھی ہاتھ سے پکڑ کر کھڑا کیا، معانقہ کیا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ فرمانے لگے: ’’کم لکھتے ہو، لیکن بہت اچھا لکھتے ہو، زیادہ لکھا کرو۔۔۔۔‘‘ یہ تھا اپنے سے ساٹھ برس چھوٹے سے ملاقات اور قدر دانی کا انداز۔ میں نے نہیں سنا کہ انھوں نے کسی کو ’’تو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہو۔ مخاطب چھوٹا ہوتا یا بڑا، ’’لا یعلم‘‘ ہو تا یا عالم، سب کو ’’تُسی‘‘ یا ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ معلوم نہیں انھوں نے کتنے اہلِ قلم کی کس کس انداز سے کہاں کہاں راہنمائی فرمائی، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ راہنمائی وہ پورے اخلاص سے فرمایا کرتے تھے۔ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے ساتھ مولانا کا قلبی لگاؤ تھا۔ وہ اپنی حیاتِ مستعار میں بہت مرتبہ جامعہ میں تشریف لائے۔ ایک مرتبہ جامعہ کی سالانہ تقریب تکمیل صحیح بخاری اور سالانہ تبلیغی جلسے میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ وہ آم کے درخت کے نیچے چار پائی پر بیٹھے چائے نوش کر رہے تھے۔ بہت سے اہلِ علم و عمل ان کے گرد تشریف فرما تھے۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ میں شاہ محمد اسماعیل شہید ہال، جامعہ تعلیم الاسلام سے نکلا تو سامنے ان پر نظر پڑی۔ میں جلدی سے ان کی طرف بڑھا اور عقیدت سے ان کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور نظر اٹھا کر سلام کرنے والے کی طرف دیکھا۔ مجھے پہچانتے ہی میرے باصرار روکنے کے باوجود انھوں نے چائے کا کپ نیچے رکھا اور کھڑے ہو کر مجھے گلے لگایا اور فرمایا: ’’شکل ای بدل لئی اے، میں بڑی مشکل پچھانیا اے۔‘‘ میں نے قدرے بڑی مونچھیں کتر کر سر پر سفید صافا باندھ رکھا تھا۔ انھوں نے اس حالت میں مجھے اس سے
Flag Counter