Maktaba Wahhabi

234 - 924
میں نے اپنا تعارف کرایا اور فون کرنے کا مقصد عرض کیا۔ انھوں نے بڑی غور سے میری بے ربط باتیں سنیں اور میری بے حد حوصلہ افزائی اور راہنمائی فرمائی۔ ان کی گفتگو میں ہمدردی، اپنائیت اور بے تکلفی کے عناصر بالکل واضح تھے۔ بات ختم ہوئی تو انھوں نے رابطہ رکھنے کا حکم دیا، لاہور آنے کی دعوت دی اور دعاؤں سے نوازا۔ اس کے بعد ان سے فون پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ کبھی میں فون کرتا، کبھی وہ خود تکلیف اٹھاتے۔ جب وہ فون کرتے تو مجھے بہت حیرت اور مسرت ہوتی۔ گفتگو کا موضوع کوئی کتاب، کوئی مضمون یا تازہ سر گرمیاں ہوتا تھا۔ میرے علاقے کے جن اہلِ علم سے ان کے مراسم تھے، ان کے احوال بھی دریافت فرما لیتے تھے، بالخصوص مولانا عبدالقادر ندوی، حکیم ثناء اللہ اور مولانا خلیل الرحمن اثری کے۔ نیز جامعہ تعلیم الاسلام(ماموں کانجن)کے بارے میں بھی پوچھ لیتے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ مولانا کسی زمانے میں بلکہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے ابتدائی زمانے میں پہلے معاون مدیر اور پھر برس ہا برس تک مدیر رہے ہیں ۔ ’’الاعتصام‘‘ میرے بزرگوں کے نام آیا کرتا تھا۔ اس کے متعدد فائل ہمارے پاس محفوظ ہیں ۔ میں ان کی ورق گردانی تو کرتا رہتا تھا، اب اس میں مولانا کے مضامین اور اداریے بڑے غور اور شوق سے پڑھنے لگا تھا۔ کسی جماعتی رسالے میں کسی شخصیت پر ان کا مضمون چھپتا تو اسے شوق سے پڑھتا۔ چند رسائل تو میرے نام آتے ہیں ، باقی جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن(ضلع فیصل آباد)کی لائبریری میں دیکھ لیتا تھا۔ جامعہ کی لائبریری میں ماہانہ درجنوں رسائل و جرائد آتے ہیں ۔ ۲۰۰۶ء کے وسط میں لاہور گیا۔ مولانا مرحوم نے اپنے مکان کا راستہ مجھے فون پر سمجھا دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ان کے سٹاپ پر اتر کر انھیں فون کر دوں ۔ میں نے انھیں فون کیا۔ انھوں نے جلدی سے فرمایا: یہیں ٹھہریے! میں ابھی آیا اور اس کے فوراً بعد فون بند ہو گیا۔ چند منٹ کے بعد ایک بزرگ نمودار ہوئے، جو میری طرف تیز قدموں سے آرہے تھے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ شاید یہی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہوں ۔ اسی اثناء میں انھوں نے آکر مجھے ’’جپھا‘‘ ڈال لیا۔ ایسے ملے جیسے بچپن کے دوست مدت دراز کے بعد ملے ہوں ۔ تھوڑی دیر کے بعد ساندہ(لاہور)میں واقع ان کی بیٹھک میں موجود تھا، تقریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت مَیں نے ان کے ساتھ گزارا۔ ان کی گفتگو اور میزبانی سے اخلاص، محبت اور خدمت ایسے اوصافِ حمیدہ ٹپک رہے تھے، انھیں اپنے موضوع خاص سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ اپنے اہلِ قلم ملاقاتیوں میں بھی وہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس سلسلے میں اہلِ قلم و اصحابِ علم کی بے لوث راہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے تحریر و نگارش کے سلسلے میں میری بھرپور راہبری فرمائی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ یہ تو ان کی ’’عادتِ عامہ‘‘ تھی۔ ایک مرتبہ میں نے انھیں فون کیا، تو پتا چلا کہ وہ بہاول نگر تشریف رکھتے ہیں ۔ میں نے فون بند کر دیا۔ اگلے ہی لمحے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے آن کیا تو آواز آئی: السلام علیکم! حکیم صاحب کی حال اے۔ تگڑے او۔ یہ میرے محسن مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تھے۔ انھیں لاہور سے میرے فون کرنے کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے
Flag Counter