Maktaba Wahhabi

231 - 924
کیا ہوا کہ یکایک منظر بھیگتا چلا گیا اور آنسو بے دریغ گالوں پر ڈھلکتے چلے گئے۔ جنازے کے دراز قامت امام ڈاکٹر محمد حماد لکھوی کے پُر معارف سینے سے دعاؤں میں سمٹے کرب کے چشمے یوں پھوٹے کہ صفیں سسکنے لگیں ۔ لاریب یہ ایک خود ساز اور عہد ساز شخص کا جنازہ تھا۔ کوئی سوچے، بھلا اس سے زیادہ کسی کی کامیابی اور کسی شخص پر اللہ کا کرم اور کیا ہوگا کہ جس شخص نے کبھی کالج کا منہ تک نہ دیکھا ہو، اس شخص کی حیات و خدمات اور اس کے اسلوبِ نگارش پر یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے لکھے جائیں ۔ اس کی وقیع کتابیں ملک کے اندر ہی نہیں سرحد کے پار بھی چھپیں ۔ اس کی کتب کے ہندی اور انگریزی تراجم شائع ہوں اور پھر بصورت کتب ہی اس شخص کی نگارشات کو پذیرائی نہ ملے، بلکہ اس کے رشحاتِ قلم ملک کے معتبر روزناموں ، قومی رسالوں اور انسائیکلو پیڈیاز میں بھی موزوں جگہ پائیں ۔ کسی شخصیت کے نام اور مقام کے لیے ایک معتبر گواہی اس کے معاصرین کی بھی ہوتی ہے۔ یہ بڑا کڑا پتھر ہوتا ہے جو ہر کسی کے لیے موم نہیں ہوتا۔ معاصرت ہی ایک سببِ منافرت بھی ہوتی ہے۔ مولانا موصوف پر مگر اس سلسلے میں بھی رحمتِ الٰہی کی برکھا کھل کے برسی تھی، قارئین اور معاصرین سے انھیں برابر محبت ملی تھی۔ سینئر صحافی ارشاد عارف کے برادر مرحوم، صاحبِ علم و سلوک صاحبزادہ خورشید گیلانی نے اپنی کتاب ’’رشکِ زمانہ لوگ‘‘ تالیف فرمائی تو اس میں اہلِ حدیث کے جن دونام وَروں کے فضل و فن کا والہانہ اعتراف کیا، ان میں ایک یہی ہمارے ممدوح اور دوسرے پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب تھے۔ انڈیا کی علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات کے ڈین اور محقق ومصنف ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی پاکستان تشریف لائے تو ایک مجلس میں مولانا کے متعلق فرمایا: ’’بھٹی صاحب کی تحریریں پڑھ کے ہم نے لکھنا سیکھا ہے۔‘‘ نگارش و گفتار میں جراَت کی کہانی اور ’’نئی بات‘‘ کے ایڈیٹوریل میں عظمتِ رفتہ کی نشانی جناب حافظ شفیق الرحمن نے ایک موقع پر بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو بے ساختہ نابغۂ عصرقرار دیا، اس عاجز نے یہی بات بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو کسی مجلس میں بتائی تو نابغۂ صاحب سراپا عجز و انکسار ہو گئے، انکار میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہنے لگے: ’’نہیں ، نابغہ تو میں نہیں !‘‘ شخصِ نستعلیق اور قول و قلم کے انیق مجیب الرحمن شامی صاحب کو میں نے موصوف کی مجلس میں مودب اور ان کی جملہ کتابوں کی جستجو کرتے پایا۔ جن دنوں بھٹی صاحب مستجاب الدعوات صوفی عبداللہ صاحب رحمہ اللہ پر کتاب لکھ رہے تھے، انہی دنوں بائبل کے سے پُرشکوہ لہجے میں پکارنے اور مخالف کو لفظوں کی تلوار سونت کے للکارنے والے قلمکار ہارون الرشید نے اس پر جنگ میں کالم باندھا: ’’ممتاز مصنف اسحاق بھٹی صوفی عبداللہ پر کتاب لکھ رہے ہیں ۔‘‘ اس ناچیز کو بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مسکرا کے بتایا تھا کہ جس دن یہ کالم چھپا، ٹھیک اسی دن ’’ممتاز مصنف‘‘ نظر ثانی کرنے والے اپنے ایک کرم فرما کے ہاتھوں کتاب کا حتمی مسودہ ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔(یہ ساری کتاب انھیں ازسرِ نو مرتب کرنا پڑی تھی اور
Flag Counter