Maktaba Wahhabi

229 - 924
نے عرض کیا: جی ہاں ! وہی کتاب ہے، وہی میں ہوں ، وہی آپ، یہ قدرت کے کرشمے ہیں ۔ انھوں نے اپنے قلم سے کچھ مقامات پر نشاندہی فرمائی، کچھ زبانی ہدایات سے نوازا، پھر اُٹھے، میں بھی اُٹھنے لگا، انھوں نے مجھے اُٹھنے نہیں دیا، بلکہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے اور الماری کھولی، ایک لفافہ نکال کر لائے، اس میں سے کچھ کاغذات نکالے اور دوبارہ چارپائی پر آکر بیٹھ گئے، کاغذات دیکھنے لگے، پھر میرے نشان زدہ حصوں کے مطابق ترتیب دینے لگے، چند کاغذات ان میں سے نکالے اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ دو قسطیں میرے پاس تھیں ، یقینا ان میں نہیں ہیں ،جو آپ لائے ہیں اور آپ نے ان کی نشان دہی بھی کی ہوئی ہے، اچھا کیا جو آپ میرے پاس آگئے، ورنہ یہ رہ جاتیں اور کتاب پھر نامکمل رہ جاتی۔ اتنے میں کھانا آگیا، میں نے کہا: اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟ فرمایا: اس میں تکلف والی کوئی بات نہیں ، میرے کھانے کا وقت ہوگیا تھا، سو کھانا آگیا، یہ الگ بات کہ ہماری قسمت میں آپ کی مہمان نوازی لکھی تھی، کھانا کھایئے اور تکلف وغیرہ کا مت سوچیے۔ کھانے کے دوران کچھ جماعتی، غیر جماعتی اور ماضی و حال کی باتیں ہوتی رہیں ، جنھیں طوالت کے خوف سے کسی دوسرے موقع کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں ۔ مجھے محسوس ہوا کہ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کافی تھک سے گئے ہیں ، یوں بھی میں جس مقصد کے لیے اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، وہ پورا ہو چکا تھا، اس لیے میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں ، بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ادھر کام ختم ہوا، ادھر اجازت؟ میں نے کہا: ایسی تو کوئی بات نہیں ، کام بھی ہوگیا اور کھانا بھی کھا لیا، مجھے آپ کے چہرے سے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ تھک بھی گئے ہیں اور کچھ کمزوری بھی محسوس فرما رہے ہیں ۔ فرمانے لگے: تو گویا اب آپ چہرے بھی پڑھنے لگے ہیں ، میں مسکرا دیا۔ اب میں اُٹھا اور ان سے معانقے کے لیے آگے بڑھا، وہ اُٹھنے لگے تو میں آگے بڑھ کر اُن سے بغلگیر ہو گیا اور انھیں اٹھنے کی زحمت نہیں دی، میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا، مصافحہ کیا تو غیر ارادی طور پر میرے ہونٹ ان کے ہاتھوں سے چپک گئے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرطِ محبت سے مجھے ایک بار پھر گلے سے لگا لیا، میری آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمانے لگے: خالد صاحب! یہ ملاقات یادگار رہے گی، اﷲ آپ کو خوش رکھے اور آپ سے ایسے اچھے کام لیتا رہے اور محترم حکیم صاحب رحمہ اللہ کی طرح بھرپور زندگی گزاریں ۔ میں نے بھی انھیں جوابی دعائیہ کلمات گوش گزار کیے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بڑی ہمت کر کے اُٹھے اور دروازے تک آئے، مجھے رخصت کرنے کے لیے، بڑی پیاری اور میٹھی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ میرے کندھوں کو تھپکایا۔ یوں میں دروازے سے باہر نکل آیا، ان کی گلی ختم ہونے تک وہ دروازے ہی میں کھڑے رہے اور میں بار بارپیچھے مڑ مڑ کر انھیں دیکھتا رہا، گلی کی نکڑ پر آکر میں نے ان کو الوداعی سلام کیا اور یہ ملاقات اختتام کو پہنچی۔ فیصل آباد پہنچ کر اس کتاب کا بقیہ کام مکمل کیا اور طارق اکیڈمی کے حوالے کیا، جسے نہایت آب و تاب کے ساتھ شائع کیا گیا، جو اکیڈمی کی تاریخی اور نادر کتب میں شمار کی جاتی ہے۔۔۔۔
Flag Counter