Maktaba Wahhabi

213 - 924
تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ، برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، قصوری خاندان، میاں فضل حق رحمہ اللہ اور ان کی خدمات، چہرۂ نبوت قرآن کے آئینہ میں ، ہفت اقلیم، تذکرہ صوفی محمد عبداللہ مرحوم، ذاتی سوانح حیات: ’’گزر گئی گزران‘‘، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث، بوستانِ حدیث، محفلِ دانش منداں ، تذکرہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ، برصغیر میں اہلِ حدیث خدامِ قرآن، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ مرحوم وغیرہ۔ مولانا مرحوم یوں تو بہت اعلیٰ پائے کے نثر نگار ہیں اور عبارت میں تسلسل کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ بھی موجود ہے۔ لیکن ان کا خاکہ نگاری میں کوئی ثانی نہیں ۔ ایسا شاندار اسلوب اختیار کرتے اور ایسی تصویر کشی کرتے کہ شخصیت کے تمام نقوش ابھر کر سامنے آجاتے۔ ملاحظہ فرمائیں ایک شخصیت کا خاکہ: ’’قاضی صاحب دراز قامت اور متناسب الاعضاء تھے، گورا رنگ، نورانی چہرہ، ستواں ناک، کشادہ پیشانی اور لمبی ڈاڑھی جو عمر کے آخری دور میں سفید ہو کر چہرے کے رنگ کے عین مطابق ہو گئی تھی۔۔۔۔‘‘ یہ ان کی کتاب ’’تذکرہ قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ ‘‘سے لیا گیا اقتباس ہے، یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بھٹی صاحب مرحوم کی خاکوں پر مبنی چار کتابیں : نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف اور قافلۂ حدیث نہایت عمدہ اور دلچسپ ہیں ۔ مولانامحمد اسحاق بھٹی مرحوم سے پہلی ملاقات میاں فضل حق رحمہ اللہ کی اقامت گاہ ۱۱۱، ملتان روڈ میں ہوئی۔ یہ سن اسّی کا عشرہ ہے۔ افغانستان میں روسی مداخلت کی وجہ سے ہر طرف الجہاد، الجہاد کا ماحول تھا۔ غیر ملکی مہمانوں کی آمد و رفت رہتی تھی، جن سے ملاقات کے لیے میں فیصل آبادسے لاہور آیا۔ یہ دسمبر کا مہینا تھا۔ اتفاق سے اس دن سخت سردی تھی، ہم مہمان خانے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک ایک بزرگ گرم کپڑے پہنے اور گلے میں مفلر لٹکائے اندر داخل ہوئے، اٹھ کر ملے، سلام دعا اور خیر و عافیت کے بعد وہ بھی چائے نوش کرنے لگے ۔میں خاموشی سے ان کی میاں فضل حق صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں بڑی چاشنی تھی اور وہ بار بار اکابر علما کا تذکرہ کرتے، بلکہ خوش طبعی کے لیے بعض لطیفے بھی سنا رہے تھے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے اور ان کی باتوں میں بلا کا اعتماد تھا۔ کوئی واقعہ بیان کرتے تو ایسے معلوم ہوتا جیسے براہِ راست دیکھ کر اس کی منظر کشی کر رہے ہوں ۔ میں پہلے سے زیادہ متوجہ ہوا اور ان کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا اور ان کے قریب آ بیٹھا۔ معاً انھوں نے میاں صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا: یہ برخوردار کون ہے؟ میاں صاحب رحمہ اللہ نے کہا: آپ نہیں جانتے، یہ جامعہ سلفیہ کے ناظم مولوی یٰسین ظفر ہیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے، اچھا یہ ہیں یٰسین ظفر! میں نے پہلے نام تو سنا تھا اور اندازہ تھا کہ وہ چالیس سال سے زائد عمر کے ہوں گے، لیکن یہ تو بچہ نکلا۔ میرے ساتھ دوبارہ مصافحہ کیا اور خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ اس کے بعد بارہا ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ کبھی میاں فضل حق رحمہ اللہ کے ہاں ، کبھی ایبٹ آباد روڈ والے دفتر میں ۔ میاں فضل حق صاحب رحمہ اللہ
Flag Counter