Maktaba Wahhabi

209 - 924
بہت خوش گوار سفر رہا۔ ہم نے تمام راستہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو سنا، لطائف، واقعات، سب چل رہے تھے۔ تحریکِ آزادیِ ہند سے متعلق کافی گفتگو رہی۔ دلچسپ امرہے کہ میرے والد محترم رحمہ اللہ مسلم لیگی سوچ کے حامل تھے، جبکہ میں اس کے برعکس۔ پاکستان سے تمام ترمحبت کے باوجود تقسیمِ وطن کو تقسیمِ امت سمجھتا ہوں ۔ ہندوؤں کی تنگ نظری اور پست سوچ تقسیم کے حامیوں کے دلائل میں وزن پیدا کرتی ہے، جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایکا نہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کی تین جگہوں پر تقسیم وحدتِ ہند کے حامیان کے لیے دلائل مہیا کرتی ہے۔ اس بحث کا یہاں مقام نہیں ۔ لیکن چلتے چلتے ایک دلچسپ واقعہ لکھتا چلوں ۔ یہ ۱۹۸۶ء کا ذکر ہوگا، میں تب کالج میں پڑھتا تھا اور اہلِ حدیث یوتھ فورس کے لیے خاصا سرگرم عمل۔ تب ہم اتنے ’’بڑے‘‘ نہ تھے کہ مسلم لیگی یا کانگریسی ہوتے۔ ہم دوستوں نے مل کر ایک مقابلہ مضمون نویسی منعقد کیا۔ اس کا عنوان تھا: ’’تحریکِ پاکستان میں اہلِ حدیث کا کردار‘‘ مقالے جمع ہو گئے۔ میرے والد محترم مولانا عبدالخالق قدوسی شہید رحمہ اللہ اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کو منصف ٹھہرایا گیا۔ میں مضامین کا پلندہ اٹھائے ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر گیا۔ اصل میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے لیے کوئی پیغام تھا۔ ان کے پاس رکا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے: یہ کیا کاغذات اٹھائے پھر رہے ہو؟ میں نے عرض کی کہ یہ مقابلہ کروایا ہے اور مضامین ہیں ۔ مولانا حنیف رحمہ اللہ مسکرانے لگے اورکہنے لگے: ’’بڑے مسلم لیگی بنے پھرتے ہو۔‘‘ تب تک مجھے مولانا کے سیاسی رجحانات کا پتا نہ تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مدت بعد مَیں ذہنی طور پر مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی رائے کا قائل ہو گیا۔ ایک اور بات یاد آئی، جب ہم نے کتاب ’’ ہفت اقلیم‘‘ شائع کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی خبر نکلی کہ اس میں پہلا مضمون مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے تو جماعت اسلامی کے بعض قریبی احباب نے مجھ سے رابطہ کیا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو کہیں کہ اس میں مناسب قطع برید کر دیں ۔ ویسے ہی نہ شائع کر دیا جائے۔ قصہ اس کا یوں تھا کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں بھٹی صاحب کا مضمون گزرے وقتوں میں مجیب الرحمان شامی کے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہو چکا تھا۔ اس مضمون میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے قلم کی کاٹ احبابِ جماعت کے نازک مزاجوں پر گراں گزری تھی اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان دنوں جماعت کے ناپسندیدہ افراد میں شامل ہو گئے تھے۔ میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے کہا کہ ان کی بات مان لینے میں کیا حرج ہے؟ ویسے بھی کسی ڈائجسٹ میں چھپنے والے مضمون اورکتاب میں فرق ہوتا ہے۔ کتاب کی حقیقت زیادہ بلند اور مضبوط ہوتی ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اس بات کو تسلیم کیا اور بعض باتیں قلم زدکر دیں ۔ مجھے نہیں معلوم ہمارے احباب اس پر راضی ہوئے یا نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود مضمون کا مجموعی تاثر ناقدانہ ہی تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ جنھوں نے دوسرے بزرگوں پر بہت تاریخی اور شاندار مضمون لکھے، اپنی روایت نہ نبھا سکے۔
Flag Counter