Maktaba Wahhabi

186 - 924
کو صدارتی ایوارڈ مل جائے۔‘‘ چنانچہ میں نے اس غرض سے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے میگزین ’’زندگی‘‘ میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تصنیفات و تالیفات پر ایک مفصل مضمون لکھا، جو ٹائٹل اسٹوری کے طور پر شائع ہوا،(شاید اب پھر قندِ مکرر کے طور پر شائع ہو جائے)اس سے ان کی علمی حیثیت کا ایک اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود بھی(کسرِ نفسی کے ساتھ)اپنی سوانح عمری، آپ بیتی کے طور پر ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے لکھ چکے ہیں ۔ وہ خود بھی فرمایا کرتے تھے: ’’خاکہ نویسی‘‘ کی طرف مجھے مجیب الرحمن شامی صاحب نے دھکیلا تھا۔ ابتدائی طور پر میں نے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں (شخصیات پر)لکھا تھا۔ اگرچہ ایک بہت چھوٹا آدمی ہوں ۔ پھر بھی میرے لیے بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایک بزرگ، ایک مربیّ اور ایک بے تکلف دوست کی طرح تھے۔ وہ تو ہر ایک کے لیے دل کے دریچے کھولے رکھتے تھے۔ وہ اتنے بڑے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والا کوئی اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھتا تھا۔ میں نے تو ان کے ساتھ بعض طویل سفر کرنے کی سعادت بھی حاصل کر رکھی ہے … کہتے ہیں ناں کہ ’’راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘۔ میں نے تو سفر کی تنہائی میں بھی اور معاملات کی یکتائی میں بھی انھیں ہر حال میں مخلص، درد مند اور بے غرض ہی پایا ہے۔ ان کے دل میں ہر ایک کے لیے خیر ہی خیر تھی۔ خیر نہ ہوتی تو آج کے کینے و نفرت کے دور میں جبکہ کوئی کسی کے لیے ایک کلمۂ خیر کہنے کو تیار نہیں ہوتا، وہ دوسروں پر اتنا زیادہ اور دھڑا دھڑ کیوں لکھتے چلے جاتے… کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ تحریکِ آزادی کے سپاہی بھی تھے اور جیل یاترا بھی کر چکے تھے۔ بھارت کے آں جہانی صدر گیانی ذیل سنگھ جب ریاست فرید کوٹ کی پرجامنڈل کے پردھان تھے تو مولانا اسحاق بھٹی سیکرٹری تھے، اور ہندی ریاستوں میں انگریز مخالف سیاست کی پاداش میں قید و جبر برداشت کر چکے تھے۔ گیانی ذیل سنگھ جب بھارتی صدر بنے تو اپنے اس دوست اور ساتھی کو بھارت یاترا کی دعوت دی، مگر مولانا رحمہ اللہ کی درویشی اور بے لوثی آڑے آ گئی۔ آخر عمر میں ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی شہر کوٹ کپورہ ’’فرید کوٹ‘‘ کو دیکھ آئیں ۔ مولانا عبدالوہاب خلیجی نے بہت کوشش کی، مگر بھارتی سفارت خانہ نے ۸۶ سال کے بوڑھے کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت پر جتنا لکھا جائے کم ہے، میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں ، مگر دل کی عجیب کیفیت ہے، روح پر غم چھایا ہوا ہے، کچھ سوجھ نہیں رہا، کیا لکھوں ، کس طرح اور کس رُخ سے لکھوں ؟… وہ تو ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے، نابغۂ روزگار تھے، عبقری تھے، مصنف کتبِ کثیرہ، علم کے سمندر کے شناور، کتب بینی اور انسان شناسی میں بہت آگے کی دنیا کے باسی تھے۔ عظمتوں کی رفعت پر فائز اور دلوں کی گہرائیوں میں عقیدت کے حامل۔۔۔ میں ان کے بارے میں لکھوں بھی تو کیا لکھ پاؤں ۔۔۔ میں صرف دو آنسوؤں سے طوفان برپا کرنا چاہتا ہوں تو بس یہی کہ ؎ ماپے تینوں گھٹ رون گے بہتے رون گے دلاں دے جانی کانٹے چھوڑ گئی آندھی لے گئی اچھے اچھے پھول
Flag Counter