Maktaba Wahhabi

185 - 924
کویت کی عرب علمی شخصیات نے ’’ذہبیِ دوراں ‘‘ کے لقب کے ساتھ اعزازات سے نوازا تھا۔ وہ شخصیات پر لکھتے تو اس طرح لکھتے کہ پڑھنے والا یوں سمجھتا، وہ تحریر نہیں پڑھ رہا، کوئی فلم دیکھ رہا ہے، وہ جزئیات تک لکھ جاتے۔ اللہ کریم نے انھیں حافظہ بھی بلا کا عطا فرمایا تھا۔ عرصہ دراز گزرنے کے باوجود جس پر لکھتے، یوں کہ جس طرح وہ سامنے حرکت کر رہا ہو۔ میں نے ’’پیغام‘‘ ٹی وی کے لیے ان سے ۱۸ گھنٹے پر مشتمل طویل انٹرویو کیا، عنوان تھا: ’’گاہے گاہے بازخواں ‘‘۔ کوئی طے شدہ سوالات نہ تھے، بس سیٹ پر بیٹھے اور رواں ہو گئے۔ میں سوال کرتا اور فوراً جواب میں تاریخ انڈیلنے لگتے، اور اس روانی اور سلاست سے کہ ہم پر ’’کوئی حیرانی سی حیرانی ہے‘‘ والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ اپنے ایک سفرِ دہلی کی بات کر رہے تھے کہ میں نے بات کاٹ کر پوچھ لیا: آپ کی مولانا شرف الدین دہلوی رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہوئی؟ وہ ایک لمحہ ہچکچائے بغیر ترنت فرمانے لگے: ’’ہاں ! ۱۹۴۲ء کی بات ہے، بدھ کا دن تھا، فلاں مہینے کی فلاں تاریخ ہم ان کوملے تو وہ گلاس میں دودھ ڈال کر اس میں روٹی کے لقمے توڑ کر بھگو بھگو کر کھا رہے تھے۔ پھر ہمارے لیے بھی منگوایا اور ہمیں بھی اپنے طعام میں شریک کر لیا۔۔۔ کسی واقعہ کو پون صدی گزرنے کے باوجود سن، تاریخ، دن کے ساتھ ساتھ تمام جزئیات اور پوری باریکیوں کے ساتھ یاد رکھنا اور پھر لکھنا انہی کا کمال تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ عجز و انکسار کا حقیقی پیکر تھے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت ہونے کے باوجود کبر و نخوت، ذرا سی بھی نہ تھی۔ کسی بھی ملنے والے پر اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے تھے، نہ اسے احساس ہونے دیتے کہ وہ کتنی بڑی شخصیت کے سامنے ہے، ان کی بودوباش عام سی اور بڑی سادہ تھی۔ میں نے انھیں بار بار، فٹ پاتھ پر پڑی کتابوں کے پاس بیٹھے اور کتابیں چنتے دیکھا ہے۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میں نے ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ کتاب لکھی تو اس کا مقدمہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے لکھا۔ پھر ۱۶؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کے روز پریس کلب میں کتاب کی تقریب پذیرائی نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم کی صدارت میں ہوئی، بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی تشریف فرما تھے، ہم زور لگا لگا کر رہ گئے، مگر مولانا اسٹیج پر تشریف فرما نہ ہوئے، حالاں کہ وہاں جو بھی بڑے بڑے تھے، مائیک پر آ آ کر بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے خوشہ چینی کا اعتراف کر رہے تھے… وہ حقیقتاً بے غرض تھے، ساری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ وہ اپنی کتابوں سے کئی ناشرین کے خزانے بھر گئے ہوں گے، مگر ان کا اپنا گھر ایک چھوٹی سی گلی میں ، چھوٹا سا ہی رہا۔ ساری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلایا تو سر بھی کسی کے سامنے نہیں جھکایا۔ بے غرضی و بے نفسی بھی تھی اور خودداری بھی کمال کی رکھتے تھے… انھوں نے اپنا نام، اپنے کام کے بل بوتے پر پیدا کیا۔ وہ نام کے لیے کام نہیں کرتے تھے، وہ تو شخصیات سے محبت کرتے تھے، اخلاص سے ان کو گمنامی سے نکال کر نمایاں کرتے تھے، ان کے اخلاص اور دل سے لکھنے کے وصف کے باعث، قدرت نے ان کو آسمانِ علم و معرفت کا تابندہ ستارہ بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کتنے ہی گمنام لوگ تھے، جن کو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے قلم نے تابندگی و درخشندگی عطا کر دی ہے۔ ہمارے محترم ضیاء اللہ کھوکھر(اسلام آباد)جو پیپلز پارٹی کے ادوار میں اعلیٰ ایوانوں میں راہ رکھتے تھے، وہ بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے مداح ہیں ، زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں مجھے کہنے لگے: ’’خواہش ہے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ
Flag Counter