Maktaba Wahhabi

177 - 924
یہ صرف بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہی کا حوصلہ اور انہی کا کام تھا۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ محترم بھٹی صاحب کس کس کے دل میں گھسے ہوئے ہیں ۔ ان کے حلقۂ ارادت کی حقیقی تعداد کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ﴿ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ﴾ [المدثر: ۳۱] ؎ حیف در چشمِ زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدم، وقتِ بہار آخر شد ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز منگل صبح سویرے عزیزم حافظ عمّار فاروق السعیدی ؔ نے بذریعہ میسج اطلاع دی کہ ذہبیِ دوراں ، مورخ و محسنِ اہلِ حدیث، سیدی و مولائی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اللہ کریم کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔اِناّ لِلّٰہِ واِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُون۔ خبر پڑھتے ہی ’’اِنَّ لِلّٰہِ ماَ اَخَذَ وَلَہُ ماَ اَعطی وَکُلُّ شَیِِٔ عِندَہُ لِاَجَل مُسمّی‘‘ کے الفاظ زبان پر جاری ہو گئے۔ آنکھیں پُرنم اور دل از حد رنجیدہ ہوگیا۔ راقم کا آں محترم کے ساتھ ارادت مندانہ اور عقیدت مندانہ تعلق تھا۔ آپ کا ہمارے والدِ گرامی مولانا عبدالعزیز السعیدی رحمہ اللہ کے ساتھ طویل عرصے سے گہرا تعلق رہا اور آپ نے ’’کاروانِ سلف‘‘ میں بڑی تفصیل سے محبت کے ساتھ ان کا تذکرہ فرمایا۔ اسی نسبت کی وجہ سے آپ میرے ساتھ بھی حد درجہ محبت و شفقت فرماتے۔ میرا جب بھی لاہور جانا ہوتا، میں آپ کی خدمت میں ضرور حاضری دیتا۔ آپ خوشی کا اظہار فرماتے اور تاکید بھی کرتے کہ لاہور آؤ تو مل کر جایا کرو۔ ساتھ ہی میری مصروفیات اور دیگر برادران کے متعلق بھی دریافت فرماتے۔ اسی محبت کی وجہ سے آپ نے اپنی دو کتابوں میں میرا تفصیلی تعارف کرایا اور ایک کتاب میں برادر گرامی مولانا عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ کا تذکرہ بھی شامل فرمایا۔ جزاہ اللّٰہ خیراً۔ آں مرحوم بلاشبہہ ایک عظیم دانشور، عظیم مفکّر، بہت بڑے عالمِ دین، مشہور مصنف اور مورخ، از حد متواضع، اہلِ علم کے قدر دان اور حد درجہ منکسر المزاج تھے۔ آپ یقینا گلشنِ اہلِ حدیث کے گلِ سر سبد تھے۔ آج آپ کی وفات پر پوری جماعت دل گرفتہ اور غمگین و رنجیدہ ہے۔ آپ مدح و ستایش سے بے نیاز ہو کر اپنے انداز میں جماعت کے اسلاف، معاصرین اور اصاغر کی تاریخ مرتب کرتے رہے اور آپ نے کبھی کسی سے صلہ و ستایش کی امید نہ رکھی۔ بزرگوں کے احوال مرتب کرنا اور ان کی تاریخ لکھنا آسان ہے، مگر معاصرین اور خود سے کم عمر کے لوگوں کو اہمیت دینا، ان کا تذکرہ اور ان کی خوبیوں اور خدمات کا اعتراف کرنا اکثر لوگوں کے لیے ناقابلِ ہضم ہوتا ہے۔ مگر آں موصوف نے کھلے دل سے نہ صرف اپنے معاصرین، بلکہ اپنے سے کم عمر لوگوں کی خدمات کا بھرپور طریقے سے اعتراف کیا اور قارئین کو ان سے بہ خوبی متعارف کرایا۔ اپنی مصروفیات کے باوجود آپ ہر شخص کو اس کے خط کا جواب ضرور دیتے۔
Flag Counter