Maktaba Wahhabi

159 - 924
سفر سادگی، سلاست، ثابت قدمی اور حقیقت پسندی سے جاری و ساری رہا۔ ان کے سیال قلم کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ جو کچھ لکھتے وہ ایک شاہکار بن جاتا، جس نے بھی ان کی تحریرِ پُرتاثیر پڑھی وہ ساری زندگی ان کا مداح بن گیا۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ صرف تذکرہ نگار ہی نہ تھے، بلکہ وہ جملہ معقولات و منقولات کے ماہر بھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے بہترین مترجم بھی تھے، فہرست ابن ندیم، ریاض الصالحین، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، لشکرِ اسامہ کی روانگی وغیرہ ان کے بلند پایہ معیاری تراجم شمار کیے جاتے ہیں ۔ آپ ایک بہترین بلند معیار انسان تھے۔ خصوصاً اپنے اساتذہ کرام کی عزت و احترام کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ حضرت مولانا حافظ محمد بھٹوی رحمہ اللہ(متوفی: ۱۹۹۵ء)کو اپنا استاد ذی شان اس وجہ سے شمار کرتے تھے کہ ان سے انھوں نے صَرف بہائی پڑھی تھی۔ جوان رہے، پا مرد رہے، بلکہ عمر ڈھلنے پر بھی ان کا فیاض قلم جواں ہی رہا۔ ان کے بڑھاپے کی تحریریں بھی جواں نظر آتی ہیں ۔ آپ کا حلیہ کچھ اس طرح کا تھا۔ درمیانہ قد، اُکھرا بدن، ذہانت کی غماز روشن آنکھیں ، کشادہ جبیں ، بے داغ صاف ستھرا لباس، شیریں گفتار، بلند کردار، برجستہ حاضر جواب، میر بزم، مہمان نواز، متناسب اعضا، چال میں متانت، لہجہ میں سوز۔ ہم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ذکر خیر کر رہے ہیں اور وہ اس وقت ’’جڑانوالہ‘‘ کی سر زمین کے ایک تودہ خاک کے تلے سوئے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے کبھی بت کدوں میں حوصلہ، عزم اور یقین کی اذانیں بلند کیں تھیں ، بد قسمتی سے یہ اور بات ہے کہ ہماری نئی پود ابھی تک یہ نہیں جانتی کہ وہ کس قد و قامت کے عظیم انسان تھے۔ وہ کہاں سے اٹھا اور ہمیں کیا کیا علمی دولتِ لازوال سے مالا مال کر کے واپس تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ہمارے نو نہالوں ، علمائے عظام، فضلائے کرام نے شاید ہی ان لوگوں کا کبھی نام سنا ہوگا جن کے تفصیلی کارہائے نمایاں کا مرحوم بھٹی صاحب رحمہ اللہ تذکرہ کر کے اپنی تصانیف لطیف میں انھیں لازوال کر گئے۔ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی موت بلاشبہہ ایک جانگداز عظیم سانحہ ہے۔ ان کے اچانک بچھڑ جانے سے دل و دماغ ہل گئے، انہی ہاتھوں کو جن میں یہ تیز رو قلم ’’ ہفت اقلیم‘‘ لکھتا رہا، قبر میں اتارا گیا۔ وہ ایسے جہاں چلے گئے، جہاں سے لوٹ کر کبھی کوئی نہیں آیا۔ موت سے کس کو رستگاری تدفین میں شامل ایک شخص نے گواہی دی کہ سفر آخرت پر جاتے ہوئے جب ان کی آخری زیارت کی تو چہرہ انتہائی پر رونق نظر آیا۔ البتہ ان کا انگوٹھا اور ان کی شہادت والی انگلی اس طرح آپس میں ملے ہوئے نظر آئے کہ گویا انگلیوں میں قلم دبائے کچھ تحریر کر رہے ہوں ۔ آہ! انھوں نے ساری زندگی لکھا، خوب لکھا، انھوں نے بڑی محنت سے علمی کام کیا، اب وہ محو آرام ہیں ، اللہ کی ان پر رحمتیں نازل ہوں ۔ آخر تک انھوں نے قلم و کاغذ، کتاب و قرطاس
Flag Counter