Maktaba Wahhabi

131 - 924
قرآن پر اپنے مضامین میں مجھ نا چیز کو بھی جگہ دی۔ مَیں نے بھٹی صاحب کے ہمراہ کچھ سفر بھی کیے اور ان کو انتہائی خوش طبع انسان پایا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی طبیعت میں تھکاوٹ اور کمزوری کی وجہ سے چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن علم، تجربے اور مشاہدے کی وسعت کے سبب بھٹی صاحب میں ہمہ وقت تازگی، خوش گواری اور شگفتگی برقرار رہی۔ بھٹی صاحب کے ہمراہ ہونے والے سفروں کے دوران میں نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ آپ صرف قلم کار ہی نہیں ، بلکہ ایک بھرپور قسم کے مجلسی انسان بھی ہیں ۔ آپ علمی نکات بڑے ہی احسن انداز میں بیان کرتے۔ ایک مرتبہ ان سے جادو کی حقیقت کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو انھوں نے اس حوالے سے بہت تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ بھٹی صاحب ایک مورخ ہی نہیں بلکہ قرآنِ مجید کی تفسیر اور حدیثِ نبوی شریف پر بھی گہری نگاہ رکھنے والے متبحر عالمِ دین ہیں ۔ علامہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب برصغیر کے واقعات اور خیالات کو نہایت شرح و بسط سے بیان کرتے تھے۔ ان کا بیان کرنے کا انداز نہایت دلچسپ اور لطیف ہوتا تھا۔ انسان ان کی سحرانگیز شخصیت اور مسحور کن گفتگو میں کھو جاتا اور اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود ماضی میں چلا گیا ہے، اور ان تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ بھٹی صاحب کے تعلقات صرف علما اور مذہبی اداروں کے ساتھ ہی نہیں تھے، بلکہ برصغیر پاک و ہند کی بہت سی سرکردہ شخصیات کے ساتھ بھی آپ کے ذاتی مراسم تھے۔ ان کے تعلقات کا دائرہ نظریاتی اور مذہبی اختلافات کے باوجود انتہائی وسیع نظر آتا تھا۔ انڈیا کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ ان کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ ان وسیع مراسم کے باوجود ان کی شخصیت میں تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اور انسان ان کی مجلس میں بیٹھ کر یہ محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اپنے عہد کے اتنے بڑے انسان کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اسحاق بھٹی صاحب کی زندگی میں کسی بھی قسم کے تکلفات نہیں تھے۔ سادہ لباس زیب تن کرتے اور مجلس میں ایک عام شخص کی حیثیت سے تشریف فرما ہوتے، لیکن جب بحث وتمحیص اور گفتگو میں حصہ لیتے تو پوری مجلس کی زینت بن جاتے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بہت زیادہ محنت والی زندگی گزاری۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے سبب اخبارات اور رسائل میں اداریہ اور کالم نگاری کا سلسلہ مشن کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت بھی انجام دیتے رہے۔ تاہم ایک مستقل مصنف کی حیثیت سے منظرِ عام پر آنے کے لیے ان کے پاس مطلوبہ وسائل موجود نہ تھے۔ آج سے تقریبا پندرہ برس قبل برادر ابوبکر قدوسی نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ مکتبہ قدوسیہ کی معاونت سے ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آتی چلی گئیں ۔ پچاس ہزار صفحات سے زائد مواد تحریر کرنے والا یہ عظیم مورخ کسی بھی سرکاری اور اداراتی سرپرستی کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت تاریخ نویسی کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ بھٹی صاحب کی تحریریں پڑھنے والا ہر شخص آپ کی ثقاہت اور غیر جانب داری کا معترف بن جاتا تھا۔ آپ کی ہر کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد آپ کی اگلی
Flag Counter