Maktaba Wahhabi

129 - 924
ان کے نہ لکھنے سے جو علمی نقصان ہوا، ہم سب کو اس کا قلق تھا۔ میں اپنے جی میں ، خود کو اس کا مجرم جانتا تھا، مگر جب ان کے پاس گیا تو چہرے پر وہی شفیقانہ مسکراہٹ، الفاظ میں وہی اپنائیت، لہجے میں وہی مٹھاس اور انداز میں وہی بے تکلفی تھی جو ان کا خاصہ تھا۔ وہ خود تو چلے گئے ہیں مگر ان کی یادیں ، ان کی باتیں بہت یاد آئیں گی اور خوب تڑپائیں گی۔ ان کی شفقت بہت رلائے گی، ہم کر بھی کیا سکتے تھے، جانے والوں کو کوئی روک سکا ہے، جو ہم روک پاتے۔ اک دعاؤں کا ساتھ رہ گیا ہے، جو ہم نبھانے کی کوشش کریں گے۔ کبھی ان کی طرف سے بلاوا آتا کہ بڑے دن ہو گئے ہیں آجاؤ، سردیوں کے موسم میں بلانے کا ایک بہانہ بھی ہوتا تھا کہ ’’آجاؤ، گاؤں سے ساگ اور گھی آیا ہے، وہ کھلاؤں گا‘‘۔ ایک روز ساگ کھانے(کے نام پر)بھٹی صاحب کے گھر موجود تھا کہ برطانیہ سے ہمارے دوست اور مہربان مولانا شیر خان جمیل احمد کا فون آگیا۔ وہ بھی بھٹی صاحب کے مداحوں میں سے ہیں ، انھیں بتایا کہ ’’ان(بھٹی صاحب)کے ہاں ہوں ، انھوں نے ساگ کھلانے کے لیے بلایا ہے۔‘‘ ان سے بھٹی صاحب کی بات بھی کروائی۔۔۔ بھٹی صاحب کے جنازے کے بعد اپنی رہایش پر پہنچا تو برطانیہ سے مولانا شیر خان جمیل احمد کا تعزیتی پیغام موصول ہوا، وہ مجھے پرسہ دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے: ’’اب آپ کو ساگ کون کھلائے گا۔۔۔؟‘‘ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ نکلے، میں ان کو کیا جواب دیتا؟ کوئی بتا سکتا ہے تو بتائے۔۔۔ میں کیا کہوں ؟۔۔۔ بھٹی صاحب جیسے محبت کرنے والے کی رخصتی کے بعد، اس شفقت سے ’’مجھے ساگ کون کھلائے گا؟‘‘
Flag Counter