Maktaba Wahhabi

128 - 924
سمیٹتے چلے جاتے۔ علمی نکات تو ہوتے ہی تھے، لطائف بھی امڈتے چلے آتے، وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ چائے چلتی، کھانا ہوتا، پھر چائے آجاتی، ہمیں ہی ان کے وقت کی گراں قدری کا احساس ہوتا تو اُٹھ آتے اور وہ باہر تک گلی میں کھڑے ہو کر پھر باتیں شروع فرما دیتے۔ ہم انھیں ادب و احترام سے کمرے کی طرف کرتے، وہ ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر باتیں کرتے کرتے ہمارے ساتھ قدم بڑھا دیتے۔ نظر آتا وہ نہیں چاہتے کہ مجلس ختم ہو، دل ہمارا بھی نہیں چاہتا تھا، مگر ان کے قیمتی وقت اور وقت سے کشید ہونے والے قابلِ قدر کام کا احساس رہتا۔۔۔۔ کئی بار وہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بھی تشریف لے آتے، یہاں ان کے مداح بھی تھے۔ جناب مجیب الرحمان شامی، قدرت اللہ چوہدری، تنویر قیصر شاہد، خالد ہمایوں اور نصیر الحق ہاشمی؛ ان کے ارادت مندوں اور مداحوں میں سے ہیں (اور بھٹی صاحب پر اپنے اپنے انداز میں لکھ بھی چکے ہیں )ایک بار بھارت سے ہندو زائرین کا ایک وفد ’’پاکستان فورم‘‘ میں آیا، ان میں ایک صاحب ’’فرید کوٹ‘‘ کے تھے۔ میں مولانا بھٹی کی اپنے آبائی علاقے سے محبت بہ خوبی جانتا تھا۔ میں نے بھٹی صاحب کو فون کیا تو اُڑے چلے آئے، ان صاحب سے اپنے ’’فرید کوٹ‘‘ کے بارے کرید کرید کر پوچھنے لگے، ان کی آنکھوں کی چمک اور لہجے کا اضطراب، ان کے دل میں چھپی اپنے شہر سے محبت کی عکاسی کر رہا تھا۔۔۔ خانپور(ضلع رحیم یار خان )کے محترم قاری عبدالوکیل صدیقی مرحوم، بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اپنے ہاں بلانے کے خواہش مند تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنی کبر سنی اور علمی مشاغل کے باعث معذرت خواہ تھے، بہت اصرار کے بعد اس شرط پر مانے کہ ’’اگر پسروری ساتھ ہوگا تو۔۔۔‘‘ مجھے چار دن ان کی ہم راہی میں سفر کی سعادت میسر آئی۔ سخت گرمی کا موسم اور پھر قاری عبدالوکیل صاحب رحمہ اللہ نے علاقے بھر میں پروگرام پر پروگرام رکھ دیے تھے۔ میرے جیسا انسان گھبرا گیا، مگر بھٹی صاحب کی پیشانی پر صرف مسکراہٹ تھی، بس ایک بار فرمایا: ’’یار میری پنڈلی میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’لائیں ، دبا دوں ۔۔۔‘‘ فرمانے لگے: ’’نہیں ، اس طرح دبوانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔۔۔۔‘‘ ایک ۸۸ سالہ بوڑھے کے منہ سے یہ الفاظ عجیب تھے، مگر وہ بوڑھا، عام انسان نہیں تھا، وہ تو عبقری محمد اسحاق بھٹی تھا۔ میں نے پیغام ٹی وی کے لیے ان کا طویل ترین انٹرویو ’’گاہے گاہے بازخواں ‘‘ کے عنوان سے کیا۔ یہ چینل کے ابتدائی ایام تھے، ہم صرف چار افراد تھے، کام کرنے والے، سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ پروگرام کی ریکارڈنگ عشا کے بعد شروع ہوتی، سردیوں کی راتیں ، اکثر گیارہ بارہ کا وقت ہو جاتا، وہ باقاعدگی سے تشریف لاتے اور اپنے سینے میں مدفون یادوں کے خزینے سے موتی نکال نکال کر نوازتے چلے جاتے۔۔۔(اس کے بعد بھی، ان کے کئی پروگرام ریکارڈ ہوئے)۔ وہ رکشے پر بیٹھ کر آتے اور جاتے تھے۔ ایک بار وہ مجھے ملنے تشریف لا رہے تھے کہ انھیں بند رکشہ کی جگہ چنگ چی ہی مل سکا، وہ اسی پر سوار ہو گئے، راستے میں تیز رفتاری کی وجہ سے چنگ چی الٹ گیا اور بھٹی صاحب کے داہنے ہاتھ کی ہڈی کلائی کے پاس سے فریکچر ہو گئی، وہ سات ماہ تک ہاتھ باندھے رہے، اس دوران میں
Flag Counter