Maktaba Wahhabi

125 - 924
مشاہدات کی گہرائی، واقعات کا استحضار، مطالعے کی وسعت، حافظے کی نعمت، اظہار کی قدرت، اسلوب کی ندرت اور دین کی حمیت جیسی اقدار اور خصائص کو پیش کرکے ادبیاتِ اردو میں ایک مستقل معیار کی حامل آپ بیتی کا اضافہ کیا ہے۔‘‘ جن دنوں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں تھے، اس ادارے میں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ بھی تھے۔ ان سے ان کی خوب بنتی تھی۔ نظریاتی طور پر بھی قریب تر تھے۔انہی دنوں ’’الفہرست لابن ندیم‘‘ جیسی کتاب کا ترجمہ کر کے اپنے مترجم کی حیثیت کو اور پھر فقہائے ہند، دس جلدوں میں مرتب کرکے وقیع علمی کتب میں اضافہ کر کے بحیثیت مصنف و محقق اپنا لوہا منوایا۔ ’’برصغیر میں علمِ فقہ‘‘ اور ’’برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش‘‘ انہی دنوں کی کاوش ہے۔ مگر احساسِ تفاخر سے دور رہے، ان کے تعلقات بڑے بڑے سیاستدانوں اور علما سے رہے۔ مگر کوئی بھی ذاتی فائدہ نہ اُٹھایا اور نہ وہ ان تعلقات کو کیش کروانے والوں میں سے تھے۔ علم و ادب، تحقیق، تصنیف و تالیف ان کا میدان تھا۔ اس سے وابستہ رہے اور اسی حال میں خوش و مطمئن رہے۔ وہ اہلِ علم کی مجلس میں خوش رہتے۔ وہ نظریاتی طور پر ان لوگوں میں سے تھے جو جمعیت علمائے ہند کے موقف کے ہم نوا تھے۔ مگر بحیثیت مورّخ وہ وہی لکھتے جو باقاعدہ تاریخ ہوتی۔ وہ تاریخ کو بدلنے والوں میں سے نہ تھے۔ ان کا تعلق تحریک آزادیِ ہند سے رہا۔ تحریکِ آزادی میں جیل بھی کاٹی۔ مگر قلم سے رشتہ برقرار رکھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ سے انھیں والہانہ محبت و عقیدت تھی۔ اس حوالے سے ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ میں ان کا تحریر کردہ خاکہ ’’ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ‘‘پڑھنے کی چیز ہے۔ ان کی تصنیف ’’مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ، ایک نابغہ روزگار‘‘ ان کی محبت کا ثبوت ہے۔ میرے والد حکیم عنایت اللہ سوہدروی رحمہ اللہ دسمبر ۱۹۹۵ء میں انتقال کر گئے تو مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے ان پر ایک مضمون لکھا، جو ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔ میں ان کی یادداشت پر حیران ہوا کہ انھوں نے اس طرح لکھا کہ کوئی واقعہ غلط نہ تھا اور شخصیت کا مکمل احاطہ کیا۔ وہ اتنی بڑی علمی و ادبی شخصیت ہونے کے باوجود غرورِ علم سے دور تھے۔ انھوں نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ ’’صلہ کی تمنا نہ ستایش کی پروا‘‘ کے مصداق زندگی بھر اپنی ڈگر پر رواں دواں رہے۔ نام و نمود سے دور اپنے کام میں مصروف رہتے۔ ان کی آپ بیتی ’’گزر گئی گزران‘‘ میں اس کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا، اس کا حق اداکر دیا۔ انھوں نے صرف علمائے اہلِ حدیث ہی کے بارے میں نہیں لکھا، بلکہ دوسری شخصیات پر بھی، جن میں دیوبند اور دیگر مکتبِ فکر کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ مگر جو دیکھا یا سنا وہی لکھا۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے بہت زیادہ کام کیا۔ صرف کام کی غرض سے گھر سے نکلتے۔ البتہ دوست احباب گھر آجاتے تو دوستوں سے مل کر خوش ہوتے اور ان کا استقبال مسکراہٹ سے کرتے۔ وہ دوستوں کی
Flag Counter