Maktaba Wahhabi

94 - 924
۱۹۶۲ء کے انتخاب میں جماعتِ اسلامی نے بھی حصہ لیا، اس پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں : ’’غور فرمائیے! ۱۹۴۶ء کے انتخاب میں حصہ لینا اور کسی کو ووٹ دینا جماعت اسلامی کے نزدیک ممنوع تھا، اور ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں اسمبلی کا انتخاب لڑنا جائز تھا، لیکن کسی سے ووٹ مانگنا شرعاً ناجائز تھا، اب جائز بالکل ضروری قرار پایا۔یعنی نظریۂ ضرورت کے تحت جماعتِ اسلامی کے مسائل بدلتے رہے اور بدل رہے ہیں ، ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے شاید نظریۂ ضرور جماعتِ اسلامی ہی سے لیا ہے۔‘‘ ( ہفت اقلیم، ص: ۱۰۴) مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مخالفین کے حق میں ہمیشہ بد دعا کرتے تھے لیکن وہ پوری نہ ہوتی تھی۔ اپریل ۱۹۰۷ء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی گرفت سے تنگ آکر پیش گوئی کرتے ہوئے دعاکی کہ ’’ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، وہ سچے کی زندگی میں مرجائے۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اسے مرزا غلام احمد قادیانی کی پیش گوئی کہیے یا دعا اور بد دعا سے تعبیر کیجیے، یہ ان کی ’’اکلوتی‘‘ پیش گوئی یا دعا تھی، جو حرف بہ حرف پوری ہوئی، اور اس کے گیارہ مہینے بعد ۲۹؍ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا صاحب کی لاہور میں موت واقع ہوگئی اور مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے مرزا کے چالیس سال بعد ۱۵؍ مارچ ۱۹۴۸ء میں وفات پائی۔‘‘(اولیات، ص: ۸۲) مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہما اللہ سے بیعت ہوکر ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو گئے تھے، مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے ملاقات کے وقت سید صاحب رحمہ اللہ سے کہا کہ ’’آپ نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کو ’’بہشتی زیور‘‘ کے قدموں پر ڈال دیا۔‘‘ ۱۹۶۲ء کے انتخاب میں جناب نعیم صدیقی صاحب رحمہ اللہ جماعتِ اسلامی کے امید واروں میں تھے، وہ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے پاس اس سلسلے میں مدد کے لیے آئے، مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ان کے ساتھ جا کر ووٹ مانگنے کے لیے کہا، نعیم صدیقی صاحب حقے اور سگریٹ کے عادی تھے، لیکن مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے پاس کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے تک بیٹھے رہے اور احترام میں سگریٹ نہیں پیا۔ بھٹی صاحب فرماتے ہیں : ’’ہم ان کے کمرے سے باہر نکلے اور سڑک پر آئے تو انھوں نے جلدی سے کیپٹن سگریٹ نکال کر سلگایا، پہلے دو کش حقے کی نَے کی طرح سگریٹ موٹھ میں رکھ کر لیے، پھر اسے چھنگلی اور اس کے ساتھ کی انگلی کے درمیان میں رکھا اور دو تین لمبے لمبے کش لے کر اس کا خاتمہ بالخیر کر دیا۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر اور نعیم صدیقی صاحب نے سگریٹ پی کر اسی وقت انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔‘‘( ہفت اقلیم، ص: ۱۰۴۔ ۱۰۵) پروفیسر فوزیہ سحر ملک(شعبۂ اردو گورنمنٹ کالج برائے خواتین، فیصل آباد)بھٹی صاحب رحمہ اللہ پر اپنے ایم فل کے مقالے میں رقم طراز ہیں :
Flag Counter