Maktaba Wahhabi

87 - 924
ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور کی لائبریری میں چودہ ہزار کتب موجود تھیں ، انھیں وہ گھول کرپی گئے: مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا عملی زندگی میں قدم یوں رکھا کہ ایک عزیز نے انھیں ہیڈ سلیمانکی کے اکاؤنٹس آفس میں سٹور کیپر مقرر کر دیا کہ کام کے ساتھ ساتھ آرام بھی کرتے جاؤ، یعنی مطالعے میں وقت صرف کرو۔ بعد میں لاہور پہنچے تو صحافت کی وادی میں قدم رکھا، لیکن ’’لہو و لعب‘‘ میں نہیں پڑے۔ دینی ہفت روزے اور ماہنامے ہی ان کی دسترس میں رہے۔ ابتدائً سیاست میں قدم رکھا تھا، لیکن انگریزی محاورے کے مطابق یہ ان کی چائے کا پیالہ نہیں تھا۔ اب لوگوں کو کم ہی معلوم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کا ایک حصہ برطانیہ کی براہِ راست حکمرانی میں تھا تو دوسرا بڑا حصہ داخلی طور پر خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ان ریاستوں پر نواب اور راجے حکومت کرتے تھے۔ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کے علاوہ دیگر امور میں یہ حضرات و خواتین خود مختار تھے اور کسی کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے تھے۔ برطانوی ہند کا وائسرائے ان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا تھا اور عوام نام کی شے تو اس کا تصور ہی نہیں کر سکتی تھی۔ برطانوی ہند میں آزادی اور حقوق کی لہر اُٹھی تو ان ریاستوں میں بھی اس کا چرچا ہوا۔ پنجاب میں آٹھ ریاستیں تھیں ، پٹیالہ، نابھہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ، جیند، مالیر کوٹلہ، کلیلہ اور نادر گڑھ۔ ان میں پرجامنڈل(پیپلزپارٹی)قائم ہوگئی۔ فرید کوٹ منڈل کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جنرل سیکرٹری نوجوان اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کو بنا دیا گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اس دوران قید ہوئے اور شہرت حاصل کر لی، لیکن سیاست میں زیادہ دیر چلے نہیں ، یہ اور بات کہ ان کے اپنے بقول چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں ، اس لیے سیاست سے دلچسپی بہر حال برقرار رہی۔ اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر داد دینے یا اکھاڑے میں اترنے والوں کو داؤ پیچ سکھانے سے انھیں تامل نہیں تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا شاید یہی چسکا انھیں کوچۂ صحافت میں لایا، لیکن ان کے اندر موجود جستجو اور تحقیق کے مادے نے انھیں اس کی نذر نہ ہونے دیا۔ دقیق موضوعات کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات پر بھی قلم اُٹھایا اور ان کے روز و شب کی گویا فلم بنا ڈالی۔ اپنی سوانح حیات لکھی اور ایک پوری صدی کے رہن سہن، رسوم و رواج اور حکایات و معاملات کو محفوظ کر دیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سادہ مزاج تھے، تکبر اور نخوت تو انھیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ اپنے عقائد میں کٹر تھے، لیکن زاہد خشک نہیں تھے۔ کسی سے نفرت کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ان کے حلقۂ احباب میں غیر مسلم بھی شامل رہے، گیانی ذیل سنگھ کی دوستی پر تو ان کو ناز تھا۔ گیانی صاحب صدر بنے تو انھوں نے اپنے لڑکپن کے دوست کو بھلایا نہیں ۔۔۔ وہ ہماری تاریخ اور سیاست کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اپنی بات نرمی سے کہتے اور دِل میں نقب لگا لیتے۔ ان سے ایک بار ملنے والا دوسری بار ملنے کی خواہش لیے ان سے جدا ہوتا۔ ان جیسا دوسرا، ان کی زندگی میں نہیں مل پایا، تو اب کہاں تلاش کیا جائے؟ اور کیونکر ملے گا؟
Flag Counter