Maktaba Wahhabi

827 - 924
(دہلی)، مدینہ(بجنور)، الجمعیت(دہلی)، سب رس(حیدر آباد دکن)خدا بخش لائبریری جرنل(پٹنہ)اور دورِ حیات (بمبئی) کے نام زیادہ اہم ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا زیادہ تر علمی و تحقیقی کام برصغیر کی سیاسی تاریخ سے متعلق ہے۔ انھوں نے ۱۹۴۷ء تک کی برصغیر پاک و ہند کی بعض قومی، ملی اور انقلابی شخصیات اور سیاسی تحریکوں کے حوالے سے منفرد انداز میں لکھا۔ انھوں نے مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، علامہ اقبال، مولانا محمود الحسن دیو بندی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا دین محمد وفائی، سردار محمد امین خان کھوسو، عبدالرحمان پشاوری رحمہم اللہ اور دیگر اصحابِ علم کے متعلق تیرہ چودہ کتابیں لکھیں ۔ بعض کتابوں کے نام یہ ہیں : مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی نظمِ جماعت کی تحریک، مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کا سروراجیہ حکومت کا پروگرام اور بعض اسکیمیں ، مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ اور پاکستان کی اسکیم ، اردو کی ترقی میں مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ کا حصہ، امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ ، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ بہ حیثیت مفسر و محدث، افاداتِ آزاد رحمہ اللہ ، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ(سیرت اور کارنامے)، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اور ان کے معاصرین، مولانا محمد علی رحمہ اللہ اور ان کی صحافت، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی صحافت، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔ مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ کی آپ بیتی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجلاتی صحافت میں بھی خوب کام کیا۔ ماہنامہ ’’امام‘‘ اور سہ ماہی ’’اردو‘‘ میں خدمات انجام دیں ۔ گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی کے سال نامہ ’’علم و آگہی‘‘ کے متعدد سال ناموں میں بے شمار علمی و تحقیقی مضامین لکھے اور اس کے بعض اہم موضوعات(مثلاً: مولانا محمد علی جوہر، قائد اعظم محمد علی جناح، تحریک پاکستان، علمی و ادبی اور تعلیمی ادارے، تحریکات ملی اور پاکستان میں تعلیم و تدریس کے مسائل)پر خصوصی نمبرز مرتب کر کے شائع کیے۔ حیدر آباد کے ماہنامہ ’’الولی‘‘ کی دو ضخیم اشاعتیں بہ عنوان: مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ(حالات و خدمات)اور مولانا دین محمد وفائی رحمہ اللہ(حیات و سیرت اور افکار و خدمات)مرتب کیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی کام بلامبالغہ بہت زیادہ ہے۔ موصوف یہ کام علم کا نور پھیلانے کی غرض سے کر رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی کتب، مضامین اور کالموں کے ذریعے ادب کے ایک عام قاری سے لے کر تحقیق و تخلیق اور تنقید و تدوین کے بالا نشینوں تک سب پُرلطف سخن کا ایک انوکھا جہان منکشف ہوا۔ ایک ایسا جہان جس میں صرف اور صرف سچائی اور علم و دانش کی فرمان روائی ہو۔ بے آمیز، بے لاگ، بے غرض اور بے پناہ علم و ادب، معلومات کا تنوع، زبان کا چٹخارہ، اسلوب کی رنگا رنگی، تہذیب کا رچاؤ اور تجربات کا بہاؤ۔ یہ سب خوبیاں ان کی تحریروں ، مقالات اور کتابوں کا حصہ ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا قافلہ حیات چھہتر(۷۶)برس سے گزر رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ صحتِ کاملہ اور خوشیوں کے ساتھ آباد رکھے اور انھیں مزید علمی خدمات کے مواقع فراہم کرے۔ آمین
Flag Counter