Maktaba Wahhabi

639 - 924
سٹائن کی بتائی ہوئی اس خاص رفتار سے تیز کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا رحمہ اللہ نے مضمون نگاری، ادب، تاریخ اور تحقیق کے میدان میں تن تنہا بطور فرد جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے وہ کئی افراد، جماعتیں ، تنظیمیں ، ادارے اور یونیورسٹیاں بھی کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں ۔ میں جب بھی ان سے ملتا، مجھے ان کی آنکھوں میں مصمم ارادوں کی چمک دکھائی دیتی، یہی وجہ ہے کہ زندگی کی نوے بہاریں دیکھنے، بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے، بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک والدین، بہن بھائیوں ، زوجہ کے انتقال اور مختلف نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے باوجود نہ تو ان کی آگے بڑھنے کی رفتار کم ہوئی، نہ ہی پایۂ استقلال میں لغزش آئی اور نہ ہی ان کی آنکھوں میں موجود مصمم ارادوں کی چمک ماند پڑی۔ میں نے کبھی انھیں مسلسل پانچ سے چھے گھنٹے تک سوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ سارا دن کاغذ قلم پکڑ کر کام کرتے۔ اسی دوران میں اگر کوئی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو کبھی انکار نہیں کرتے اور ہر بار ملنے والے سے ایسی گرم جوشی سے ملتے کہ جیسے پہلی بار ہی مل رہے ہوں ، خواہ آخری ملاقات چند گھنٹے تو کیا چند لمحے پہلے ہی ہوئی ہو اور وہ شخص ملاقات کے دوران میں اپنی کوئی چیز میز پر بھول گیا ہو اور اسی اثنا میں دوبارہ حاضر ہوا ہو۔ رات کو عشا کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ کام کرتے، پھر سو جاتے اور صبح تہجد اور نمازِ فجر کے بعد دو سے تین بار مختلف نشستوں میں کام کرتے۔ تہجد کی نماز کے بعد اللہ کے حضور ایسی گڑگڑا کر، زار و قطار انداز میں دعا مانگتے کہ اکثر ساتھ والے کمرے میں سوئے ہوئے مجھ سمیت گھر کے افراد جاگ جاتے۔ دعا اس قدر عاجزی کے ساتھ مانگتے کہ اگر کوئی سن لے تو کہے کہ اللہ تعالیٰ اس کمزور بندے کی دعا رد نہیں کریں گے۔ اس دعا میں خاندان کے ایک ایک فرد کانام لیتے، ساتھ اگر کسی دوست یا ہمسائے نے کوئی مشکل بتائی ہو تو اس کو بھی شامل کرتے اور اپنی بخشش کا بھی سوال کرتے۔ مولانا رحمہ اللہ بڑوں اور بچوں سمیت سب کو دوران گفتگو آپ کہتے۔ تم، توں ، تڑاں سے یکسرگریزکرتے۔ خوراک کافی کم تھی، بس زندہ رہنے کے لیے کھاتے۔ کھانے میں جو بھی ملتا، صبر اور شکر کر کے کھا لیتے اور کھانے کے دوران یا بعد میں کبھی نمک یا مرچ کے زیادہ یا کم ہونے کا گلہ نہ کرتے۔ جس محفل میں بھی حاضر ہوتے، اس محفل کی روح رواں بن جاتے۔ سنجیدہ موضوعات کی گفتگو اور یہاں تک کہ تقاریر میں بھی اپنی مزاح نگاری کی بدولت ایسے رنگ بھرتے کہ حاضرین خوب محظوظ ہوتے ہوئے بڑی دلچسپی سے بات سنتے۔ مولانا رحمہ اللہ کے متعلق چند سطریں انہی کی نشست پر بیٹھا تحریر کر رہا ہوں ۔ مزید باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں ، لیکن اب یہ دل ان کے ساتھ گزرے ہوئے خوش گوار لمحوں کی چاردیواری میں سمٹی ہوئی یادوں کے سمندر میں پوری طرح کچھ ایسے غوطہ زن ہوگیا ہے کہ ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں صرف ان کی تصویر نظر آرہی ہے اور قلم بھی چلنے سے قاصر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ابو جی(نانا رحمہ اللہ )کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے اور انھیں جنت الفردوس میں انبیائے کرام اور ان تمام نیک شخصیات کا ساتھ نصیب فرمائے، جن کے بارے میں آخری سانسوں تک ان کا قلم چلتا رہا۔ آمین یا رب العالمین
Flag Counter