Maktaba Wahhabi

605 - 924
میں نہایت قریب سے معین الدین کو دیکھنے کا موقع ملا اور ان سے مستحکم تعلقات قائم ہوئے۔ کئی چھوٹے بڑے سفر ان کے ساتھ کیے اور بہت سے لوگوں سے ان کی معیت میں ملاقات کے مواقع میسر آئے۔‘‘ کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’میرا یارانہ تو معین الدین سے بے شک ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا ان سے کوئی جوڑ نہیں اور میں کسی پہلو سے بھی ان سے ہم سری کا تصور نہیں کر سکتا۔‘‘(بزمِ ارجمنداں ، ص: ۵۳۴، ۵۳۷) مولانا معین الدین رحمہ اللہ کو شروع ہی سے سیاسی اور دینی راہنماؤں کو دیکھنے، ان کی تقاریر اور خطبات سننے کا ازحد شوق تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اور بڑے بڑے لوگوں سے ان کی میل ملاقاتیں رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ’’لکھو کے‘‘(مشرقی پنجاب ضلع فیروز پور)سے اوکاڑہ منتقل ہو گیا۔ مولانا موصوف مسلکی، دینی اور علمی اعتبار سے بہت نازک خیالات رکھتے تھے۔ ۱۹۵۳ ء کی تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اپنے رفقا کے ہمراہ ساہیوال جیل میں پابندِ سلاسل بھی رہے۔ ۲۴؍ جولائی ۱۹۴۸ء کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی بنیاد کے وقت وہ اس اہم اجلاس میں موجود تھے۔ مولانا محمد داود غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ کے دورِ امارت میں مرکزیہ کی مجلسِ عاملہ کے رکن رہے۔ بعد ازاں وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے امیر بنائے گئے اور پندرہ برس اس کے منصبِ امارت پر فائز رہے۔ ان کی جماعتی اور تنظیمی خدمات یادگار ہیں ۔ انھوں نے متحدہ جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے قائد اور مرکزی راہنما کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات سر انجام دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے زبردست جاہ و حشمت عطا فرمائی تھی۔ تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سابق جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ان کے گہرے مراسم تھے۔ ان کی قائم کردہ ِمجلس شوریٰ کے نامزد رکن رہے۔ آپ اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے لوگوں کے کام کرواتے تھے۔ تاحیات اپنے علمی خاندان کی آبرو بنے رہے۔ لوگوں نے انھیں بے حد تکریم سے نوازا۔ لکھوی صاحب رحمہ اللہ اسلامی طرزِ زندگی کے علمبردار، پختہ فکر، مضبوط عزم اور زہد و پرہیز گاری کے پیکر تھے۔ قومی و بین الاقوامی سیاسیات پر ان کی گہری نظر تھی۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ان کی دینی، ملی اور قومی خدمات کے عوض ۱۴؍ اگست ۱۹۸۱ء کو انھیں ستارۂ امتیاز ایوارڈ دیا۔ میاں محمد نواز شریف(وزیرِ اعظم پاکستان)ان کی خدماتِ دینیہ سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں انھیں مذہبی اور اقلیتی امور کی کمیٹی کا چیئرمین بنایا تھا۔ اسی طرح وہ نیشنل کمیٹی برائے دینی مدارس، نیشنل سیرت کمیٹی اور انصاری دستور کمیشن کے بھی رکن رہے۔ پاکستان میں بہت ساری نامور اور مقبول شخصیات موجود رہی ہیں ، لیکن دینی و سیاسی حلقوں میں جو مقام مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا، وہ شاید کسی اور کے حصے میں نہیں آیا ہوگا۔ مولانا کی سات بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں ۔ بڑے بیٹے مولانا بارک اللہ لکھوی(دینی علوم کے فاضل اور ایم اے اکنامکس ہیں )۔ دوسرے ڈاکٹر زعیم الدین عابد لکھوی اور تیسرے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی ہیں ۔ دونوں بھائی امراضِ قلب کے ماہر ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ نے ۸ اور ۹؍ دسمبر ۲۰۱۱ء کی درمیانی
Flag Counter