Maktaba Wahhabi

600 - 924
مطالعہ اور مضمون نویسی مولانا کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ فراغتِ تعلیم کے بعد مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور ان کے لٹریچر سے ایسے متاثر ہوئے کہ ان کی نظر میں تاحیات کوئی لیڈر سما سکا، نہ ہی کسی جماعت کا منشور اُن کے ذہن کے نہاں خانوں میں اپنی جگہ بنا سکا۔ آپ کی تحریری خدمات بے پناہ ہیں ۔ ایک دور میں پسِ پردہ رہ کر ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے ادارتی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے اخبار پر ان کا نام طبع نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح آپ نے ایک لمبے عرصے تک ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ کی ایڈیٹری کی اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ترجمان ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کی مجلس ادارت پر اپنا دستِ شفقت رکھا۔ آپ بہت زود نویس تھے۔ مختلف مسائلِ اہلِ حدیث پر ان کے بے شمار مضامین اور علمی مقالات پرانے رسائل و جرائد میں بکھرے پڑے ہیں ۔ ان کی چھوٹی بڑی تالیفات کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہے۔ انھوں نے اُردو زبان میں قرآنِ مجید کی تفسیر لکھنا شروع کی تھی، جس کا بیشتر حصہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں چھپتا رہا تھا(ایک طویل عرصے سے مولانا کی یہ تفسیر لوگوں کی نظر سے اُوجھل تھی، اس لیے اب ہم اپنے ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ میں قسط وار اس کی اشاعت کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس کی تمام قسطیں جمع کر لی ہیں ۔ تقریباً کمپوزنگ بھی مکمل ہو چکی ہے)۔ مولانا زبیدی رحمہ اللہ کے دو اہم علمی کارنامے سنیے۔ (1)۔مولانا محمود احمد میر پوری رحمہ اللہ کی مشاورت اور معاونت سے انھوں نے سنن ترمذی کے اُردو ترجمہ و تشریح کا آغاز کیا تھاب لیکن مولانا میرپوری رحمہ اللہ کی حادثاتی موت سے یہ علمی کام رُک گیا۔ (2)۔اسی طرح انھوں نے ’’صحیح البخاری‘‘ پر عربی حواشی لکھے۔ احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علمی رنگ میں یہ وقیع خدمت معروف صاحبِ علم بزرگ مولانا حامد باحاذق رحمہ اللہ نے حضرت مولانا ابو الاشبال احمد شاغف صاحب کے ایماء اور تعاون پر شروع کیا تھا۔ اس کی سرپرستی حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کر رہے تھے۔ اصل میں ان بزرگوں کا منصوبہ یہ تھا کہ کتبِ ستہ پر اہلِ حدیث تعلیقات لکھوائی جائیں ۔ اس کی ابتدا صحیح بخاری سے کی گئی۔ مولانا زبیدی رحمہ اللہ کے تکمیلِ حواشی کے بعد اس پر نظر ثانی کا کام ہونا باقی تھا کہ حضرت بھوجیانی رحمہ اللہ پر فالج کا حملہ ہو گیا اور باقی کے منصوبے پر کام رُک گیا۔ آخر کار مولانا ابو الاشبال اور مولانا حامد باحاذق رحمہ اللہ سے مشاورت کے بعد نظر ثانی کے لیے تمام مسودہ جامعہ سلفیہ بنارس بھیج دیا گیا۔ مگر افسوس یہ تاریخی خدمتِ منظر عام پر نہ آسکی۔ مولانا زبیدی رحمہ اللہ مختصر علالت کے بعد مئی ۲۰۰۳ء میں وفات پا گئے۔ آپ کا نمازِ جنازہ شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ نے پڑھائی۔ راقم نے تراجم علمائے اہلِ حدیث جنوبی پنجاب پر تحریری سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس میں مولانا زبیدی رحمہ اللہ کے حالات و خدمات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ بلاشبہہ وہ اس صدی کے عظیم محدث تھے۔ تفسیر و حدیث میں ان کی بے بہا خدمات ہیں ۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ واعف عنہ و أدخلہ الجنۃ الفردوس مع الأبرار في العلییّن۔
Flag Counter