Maktaba Wahhabi

598 - 924
دینی علوم و فنون کی تکمیل کی۔ ۱۹۳۴ء میں سندھ کے ایک علاقے جیمس آباد کے گاؤں چک نمبر ۳۳۳ چلے گئے۔ وہاں ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور ۴ سال خطابت اور تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ضلع امر تسر کا ایک قصبہ ’’پٹی‘‘ ہے، ۱۹۳۸ء میں وہاں چلے گئے۔ دعوتی اور جماعتی خدمات کی توفیق پاتے رہے، اور یہیں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد قصور آگئے۔ پٹی والے مدرسے کے نام سے مبلغ ۱۶۰۰۰؍ ہزار روپے کا کلیم حاصل کیا اور راجہ جنگ میں ’’دار العلوم ضیاء السنہ‘‘ کے نام سے مدرسہ قائم کیا اور ایک ’’حدیث ہال‘‘ بھی تعمیر کرایا۔ قصور شہر کی مرکزی مسجد فریدیہ اہلِ حدیث کی توسیع میں مولانا رحمہ اللہ کا بڑا اہم کردار ہے۔ قصور کے شیخ حاجی عبدالکریم رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر ایک سکول بنام ’’تائید الاسلام پرائمری سکول‘‘ کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اسے ہائی سکول کا درجہ ملا۔ بھٹو دور میں یہ قومی ملکیت میں چلا گیا۔ مولانا انصاری رحمہ اللہ سیاسی کاموں کا شوق رکھتے تھے۔ ۱۹۵۲ء کی تحریک میں میونسپل کونسلر قصور منتخب ہوئے۔ تحریک ختمِ نبوت میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک میں آپ نے عظیم خدمات پیش کیں ۔ گرفتار بھی ہوئے اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کی تعمیر و ترقی میں آپ کی یادگار خدمات ہیں ۔ ۱۹۵۸ء میں مفکرِ اسلام حضرت مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے انھیں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث مغربی پاکستان کے دفتر میں ناظم دفتر کا چارج سونپا۔ تقریباً ۶ برس اس ذمے داری کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ آپ کی بے پناہ دینی خدمات میں چند مزید یہ ہیں ۔ دسمبر ۱۹۷۷ء میں جماعتی احباب کی معاونت سے قصور میں ’’مدرسہ حفظ القرآن فریدیہ‘‘ جاری کیا۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ضلع قصور کے امیر رہے۔ اسی طرح علما و مشائخ کی نگرانی میں ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفی میں حصہ لیا اور اپنے شہر قصور کی تحریک کے بانی قرار پائے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ ۳۱؍ مارچ ۱۹۷۷ء کو جامع مسجد مسلم لاہور سے بہت بڑا جلوس نکلا۔ قصور کی نمایندگی مولانا موصوف کر رہے تھے۔ چناچہ وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ پولیس نے بھٹو کے حکم پر نہتے لوگوں پر ظالمانہ لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جس سے مولانا عبدالعظیم انصاری رحمہ اللہ شدید زخمی ہوگئے۔ اصل میں ان کی دو پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں ۔ وہ طویل عرصہ صاحبِ فراش رہے، لیکن اس کے باوجود دعوت و تبلیغ کے کاموں پر ان کی گہری نظر رہی۔ ۱۹۷۹ء میں قصور کے علاقے کوٹ اعظم خان کے باہر جامع مسجد ’’الفیصل‘‘ اہلِ حدیث کی بنیاد رکھی۔ اس وقت یہ ایک بڑا دینی مرکز ہے۔ مولانا نے ساری زندگی رفاہی، سماجی، علمی اور تبلیغی امور میں گزاری۔ آپ ایک نامور قلمکار بھی تھے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ و ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ و دیگر جرائد میں آپ کے مضامین اور جماعتی احوال و وقائع چھپتے رہتے تھے۔ وہ تلخ، ترش اور کبھی کبھی شیریں حقائق کو دیگر لکھاریوں کے مقابلے میں زیادہ موثر اور زیادہ فنی انداز میں اپنے قارئین تک پہنچاتے تھے۔ ’’علمائے بھوجیاں ‘‘ ان کی گراں قدر تصنیفِ لطیف ہے۔
Flag Counter