Maktaba Wahhabi

595 - 924
کلکتہ میں اک اور بھی ہیں ان کے ہم لقب یہ ہست غزنوی ہیں ، وہ بود غزنوی کلکتہ میں ’’ان کے ہم لقب‘‘ سے مراد سر عبدالحلیم غزنوی تھے، جو انگریزی حکومت کے حامی اور تحریکاتِ آزادی کے مخالف تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کا شمار ان کے معاصرین میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ مولانا مرحوم کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان سے تعلقات کی بڑی وجہ علم و مطالعہ کا اشتراک تھا۔ مولانا رحمہ اللہ بے حد نفاست پسند تھے۔ ان کے مطالعے کی میز خاصی بڑی تھی۔ میز پر کتابیں انتہائی سلیقے اور قرینے سے رکھتے۔ ان کا کتب خانہ بڑا وسیع تھا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، شروحِ حدیث، اصولِ حدیث، ادبیات، تاریخ، فلسفہ، منطق وغیرہ کی کتابیں اس میں موجود تھیں ۔ہر قسم کا ذخیرۂ فقہیات ان کے سامنے تھا اور اس موضوع پر اہلِ علم سے گفتگو کرتے تو بغیر کسی تکلف کے مختلف فقہی کتابوں کے زبانی حوالے دیتے اور ان کی عبارتوں کی عبارتیں پڑھتے جاتے۔ مورخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، حضرت غزنوی رحمہ اللہ کا بے حد احترام کرتے تھے اور انھیں متعدد معاملات میں بہت سے علما و زعما سے فائق سمجھتے تھے۔ انھوں نے ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ میں سب سے پہلے آپ کی شخصیت کو ہدفِ تحریر بنا کر طویل ترین مضمون لکھا، جسے علمی وادبی حیثیت میں ایک الگ کتاب کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ درج بالا سطور کا ماخذ بھی یہی مضمون ہے۔ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’مولانا عام طور پر بھی ’’مولوی اسحاق‘‘ کہا کرتے تھے۔ ’’مولوی اسحاق رحمہ اللہ ‘‘کا لفظ میں نے لکھ دیا ہے، قارئینِ کرام اسے پڑھ بھی لیں گے، لیکن افسوس ہے، ہزار کوشش کے باوجود وہ اسلوبِ گویائی، وہ گونج گرج اور وہ اندازِ تخاطب قلم کی زبان پر نہیں آسکتا جو مولانا رحمہ اللہ کی زبان پُر جلال اور لہجہ پُرشکوہ کے ساتھ مخصوص تھا۔ ان کی رعب دار آواز ’’مولوی اسحاق۔۔۔!‘‘ اب بھی کانوں میں گونج رہی اور رس گھول رہی ہے۔‘‘(نقوش عظمتِ رفتہ، ص: ۲۱) مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۳ء کو صبح پونے نو بجے وفات پائی۔ اگلے روز ۱۷؍ دسمبر کو منگل کے روز صبح دس بجے ان کا نمازِ جنازہ جمعیت اہلِ حدیث کے ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے پڑھائی۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی وفات کی خبریں تمام بڑے اخبارات اور جرائد میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئیں ۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی ان کی وفات کی خبر نشر ہوئی۔ ان کے حالاتِ زندگی بیان کیے گئے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں مولانا کی دینی اور سیاسی خدمات و افکار کے متعلق کئی مضامین شائع ہوئے۔ معروف مصنفین نے ان کی دینی اور سیاسی خدمات پر اظہارِ خیال کیا۔ مولانا ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ آپ کے علمی وراثت کے امین بنے۔ اللہ تعالیٰ خاندانِ غزنویہ کے مرحومین کو جنت الفردوس کا وارث بنائے اور موجودین کو زیادہ سے زیادہ خدمتِ کتاب و سنت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
Flag Counter