Maktaba Wahhabi

562 - 924
مسجد کے دو دروازے تھے۔ آپ ایک دروازے سے مسجد کے اندر داخل ہوئے تو انھیں دیکھتے ہی مخالفین پر اتنا رعب پڑا کہ وہ دوسرے دروازے سے باہر نکل گئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے نہایت اطمینان سے خطبہ ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی۔ مسجد کے نمازیوں نے ان سے عرض کی کہ آپ مستقل طور سے یہاں تشریف لے آئیں اور مسجد کی خطابت و امامت کا فریضہ سر انجام دیں ۔ حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا: میں امرتسر کا مدرسہ چھوڑ کر یہاں نہیں آسکتا، اگر آپ چاہیں تو اپنے چھوٹے بھائی مولانا عبدالواحد غزنوی کو یہاں بھیج دیتا ہوں ۔ چنانچہ مسجد کے نمازیوں اور انتظامیہ کی رضا مندی سے مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ کو چینیاں والی مسجد کے خطیب و امام مقرر کر لیا گیا۔ حضرت امام سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ نے ایک جمعہ پڑھایا تھا۔ یہ ۱۹۱۰ء کی بات ہے۔ یہ واقعہ میں نے ’’چمنستانِ حدیث‘‘ میں حضرت مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے حالات میں بیان کیا ہے۔ آپ نے شاید اس کتاب کے مطالعے کی زحمت نہیں فرمائی۔ ایک یا دو جمعے پڑھانے والے کسی شخص کو مستقل خطیب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ کو ۱۹۱۰ء میں اس مسجد کے خطیب اور امام مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۰ء کو وفات پائی اور بیس سال اس مسجد کے منصبِ خطابت و امامت پر فائز رہے۔ ۱۹۳۱ء میں یہ منصب مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کو تفویض ہوا۔ وہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۳ء کو فوت ہوئے، اس وقت وہ اس مسجد کے خطیب تھے۔ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ اگر بیمار ہو جاتے یا کسی سیاسی تحریک میں انھیں قید کر لیا جاتا تو وہ خود ہی کسی عالمِ دین کو عارضی طور پر اپنی جگہ خطیب مقرر کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۳۲ء(۱۳۵۱ھ)میں مولانا رحمہ اللہ قید ہوئے تو اپنی جگہ مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ کو خطیب مقرر کیا(اور مدرس بھی)اس کی تفصیل ’’تذکرہ مولانامحی الدین لکھوی رحمہ اللہ ‘‘میں بہ ضمن حالات مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ ملاحظہ کیجیے۔ نیز دیکھے ’’تذکرہ علمائے بھوجیاں ‘‘(از مولانا عبدالعظیم انصاری، ص: ۳۲۵ تا ۳۲۹ اور ص: ۳۳۱)یہ کتابیں آپ کے پاس ہوں گی، لیکن آپ نے ان کا پڑھنا شاید مناسب نہیں سمجھا۔ مولانا رحمہ اللہ کی بیماری کے دوران میں کچھ عرصہ حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ اس مسجد میں خطباتِ جمعہ دیتے رہے۔(چمنستانِ حدیث، ص: ۳۳۱)چند جمعے مولانا رحمہ اللہ کی بیماری کے دنوں میں مولانا عطاء اﷲ ثاقب رحمہ اللہ نے بھی پڑھائے۔ یہ سب حضرات عارضی خطیب تھے، جو خود مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے مقرر کردہ تھے۔ اصل خطیب چوں کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ ہی تھے، اس لیے عارضی خطبا کا تذکرہ بہ طور خطیب کبھی نہیں ہوا۔ نہ اس کی ضرورت ہے۔ مولانا کی وفات کے بعد البتہ مولانا محمد اسحاق رحمانی رحمہ اللہ کو باقاعدہ خطیب مقرر کیا گیا تھا۔ اور وہ کچھ عرصہ(صحیح طور پر معلوم نہیں کتنا عرصہ)خطیب رہے۔ ان کے بعد علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ اور پھر رانا شفیق خاں پسروری کا دورِ خطابت آیا، جس کا آپ کو علم ہے۔ اب آئیے مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور مولانا عبداﷲ شائق مؤی کی طرف۔! مولانا بٹالوی رحمہ اللہ کا اصل تعلق مسجد لسوڑے والی(اندرون شیراں والا گیٹ)سے تھا۔ وہ لاہور تشریف لاتے تو اسی مسجد میں قیام فرماتے اور اسی
Flag Counter