Maktaba Wahhabi

55 - 924
اُن سے آخری بالمشافہہ ملاقات تھی۔ انھوں نے خوش کن خطاب فرمایا، جس سے طلباء و اساتذہ اور شرکائے تقریب خوب محظوظ ہوئے۔ اس موقع پر ان کی تازہ ضخیم تصنیف ’’چمنستانِ حدیث‘‘ کی رونمائی کی گئی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ۵۵ء اپریل کے آغاز میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی سالانہ کانفرنس منعقدہ دھوبی گھاٹ ہوئی تھی، جس کی صدارت مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی رحمہ اللہ نے فرمائی تھی۔ مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ(امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث)کا معمول تھا کہ کسی بڑے پروگرام میں شرکت کے لیے وہ ایک روز پہلے تشریف لے آتے تھے، خاص طور پر مرکزی کانفرنسوں میں ان کا یہی انداز تھا۔ چناں چہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کانفرنس سے ایک روز قبل شام کے وقت فیصل آباد تشریف لائے، آپ کے ہمراہ ایڈیٹر ’’الاعتصام‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی تھے، جن کی اس زمانے میں بھرپور جوانی تھی۔ ابو الکلامی ڈاڑھی مونچھ اور سفید کرتا پاجامہ کے اوپر سیاہ واسکٹ میں ملبوس بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے متعارف ہوئے۔ ہم ’’شبان اہلِ حدیث‘‘ کے بیس پچیس نوجوان کانفرنس کے انتظامات، پنڈال اور اسٹیج وغیرہ کی آرایش اور ترتیب و تزئین میں مصروف تھے۔ انتظامی امور میں مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے ہمیں بہت سی ہدایات دیں ۔ علما کے قیام و طعام اور عام و خاص کی رہایش و کھانے کے سلسلے میں انھوں نے کئی ایک اصلاحات فرمائیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ہم شبان اہلِ حدیث کی تبلیغی سرگرمیوں اور تنظیمی کارگزاریوں کی روداد ’’الاعتصام‘‘ کے لیے بھجواتے رہتے تھے۔ وہ ان کو جلی سرخیوں اور بڑے صحافتی سلیقے سے شائع کرتے اور بذریعہ خط کتابت حوصلہ افزائی بھی فرماتے۔ چند سال بعد بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ڈاڑھی بڑھا لی اور علمائے کرام کے ساتھ ان کی نشست و برخاست اور گفتگو میں کچھ مولوی پن کچھ اُجاگر ہوا، جبکہ وہ جلیل القدر علما سے فیض یاب اور درسِ نظامی کے فارغ التحصیل بھی تھے۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آیا جو خود بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے سنایا کہ ’’ایک مرتبہ مجھے مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اس دور کے نامی گرامی صحافی اور شاعر مولانا عبدالمجید سالک رحمہ اللہ کے دفتر لے گئے۔ انھیں ’’الاعتصام‘‘ کا تازہ شمارہ دیا اور میرے بارے میں کہا کہ یہ اس کے ایڈیٹر محمد اسحاق بھٹی ہیں ۔ سالک صاحب رحمہ اللہ نے ’’الاعتصام‘‘ اٹھایا اور مذاقاً کہا کہ یہ تو ہوا ’’الاعتصام‘‘ اور میری ڈاڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہوئی ’’حبل اللہ‘‘۔‘‘ یاد رہے مولانا عبدالمجید سالک صاحب ڈاڑھی مونچھ کے بغیر تھے، ہم نے کئی بار انھیں مشاعروں میں سنا، بلکہ مشاعروں کی صدارت بھی وہی کرتے تھے۔ دراصل مخلص دوست زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اور اس کی اس جہان سے رخصتی نہ صرف قلب و ذہن کو ہمیشہ کے لیے مغموم کر دیتی ہے، بلکہ یادوں کی ایک بھاری گٹھڑی بھی ذہن پر لاد دیتی ہے، جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی کس کس خدمت اور ادبی و صحافتی، علمی و سیاسی نگارشات کا تذکرہ کیا جائے، ان کی بہت بڑی دینی خدمت ’’فقہائے ہند‘‘ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔
Flag Counter