Maktaba Wahhabi

523 - 924
الفیض لائبریری میں موجود ہیں ، لیکن اس کے مقامِ اشاعت اور ایڈیٹر کا نام نہیں لکھا۔ یہ بھی نہیں لکھا کہ یہ جلدیں کن تاریخوں اور سالوں کی ہیں ۔‘‘(’’المعارف‘‘، مارچ: ۱۹۸۴ ء، ص: ۴۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہونے والے علمی، تحقیقی اور ادبی کاموں سے پاکستان کے لوگوں کو زیادہ واقفیت نہیں ہے اور غالباً اسی طرح ہندوستان والے پاکستان کے کاموں سے بے خبر رہتے ہیں ۔ اس کی و جہ دونوں ملکوں کا مواصلاتی نظام ہے۔ کاش دونوں ملکوں کی ڈاک کا نظام بہتر ہو جاتا۔ مولانا حسرت موہانی پر ہندوستان میں کافی کام ہوا ہے۔ گور کھ پور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر احمر لاری نے مولانا پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہے، ان کا تحقیقی مسودہ بر سوں پہلے چھپ چکا ہے۔ لاری صاحب نے اس کے علا وہ بھی حسرت پر کام کیا ہے اور ان کی کئی کتا بیں بھی اس موضوع پر شائع ہوئی ہیں ۔ مولانا حسرت کی ادارت میں ’’اردوئے معلی‘‘ اور ’’تذکرہ شعر ا‘‘ کے علا وہ ’’مستقل‘‘ بھی کئی برس تک شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ ان کے علی گڑھ چھوڑنے اور کان پور میں مستقل قیام کے زمانے میں پہلی دفعہ ۲۸ ۱۹ء میں جاری ہوا تھا۔ ۱۹۲۹ء تک یہ روزانہ رہا، پھر ۳۰، ۳۱ اور ۳۲ء میں دو روزہ، سہ روزہ اور ہفتہ وار نکلتا رہا۔ جنوری ۱۹۳۳ء سے یہ ماہانہ ہوا اور ۱۹۳۶ء سے ’’اردو ئے معلی‘‘ کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہونے لگا۔ مگر اب مستقل کی فا ئل کم یاب ہیں ۔ راقم کے ایک دوست اورگورکھ پور کے ایک ذی علم و صاحبِ ذوق رئیس جناب محمد حامد علی صاحب کے ذاتی کتب خانہ میں ’’مستقل‘‘ کے اکثر پرانے شمارے موجود تھے، انھوں نے دو تین برس قبل ’’انتخابِ مستقل‘‘ کے نام سے اس کے اداریوں کا ایک انتخاب مرتب کیا ہے، جسے اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ دراصل اخبار کی حیثیت سے ’’مستقل‘‘ زیادہ اہم نہ تھا، تاہم اس سے حسرت کے سیاسی خیالات و نظریات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، بلکہ خبروں اور مضامین کا وہی انداز جو ’’اردوے معلی‘‘ میں شائع ہونے والے حسرت کے مضامین اور تبصروں کا ہے۔ جناب محمد حامد علی صاحب رئیس گورکھ پور نے ’’مستقل‘‘ کے اداریوں کا جو انتخاب مرتب کیا ہے، ان میں گذشتہ نصف صدی قبل کے اہم قومی، ملی اور سیاسی واقعات و مسائل پر حسرت نے بے لا گ اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس سے ان کی بے باکی اور حق گوئی اور خاص رنگ کے علا وہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی ہوتی ہے۔ جناب محمد حامد علی صاحب کے قلم سے ’’انتخابِ مستقل‘‘ کے شروع میں ایک مقدمہ بھی ہے، جس میں حسرت کی صحافت اور ’’مستقل‘‘ اخبار کے متعلق مفید اور ضروری معلومات کے علاوہ اس کے مضامین اور اداریوں کی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
Flag Counter