Maktaba Wahhabi

497 - 924
کے لیے مولانا ممدوح کی خدمت میں پیش کیا اور میں ان کے حلقۂ شاگردی میں شامل ہوگیا۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولاناحافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ پہلے تفسیر و حدیث اور دیگر درسی کتابیں مولانا بھوجیانی سے پڑھیں ، پھر مولانا ممدوح کے حکم کی تعمیل میں گوجرانوالہ گیا اور صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک کا درس دوبارہ حافظ گوندلوی رحمہ اللہ سے لیا۔ تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین، ابو داود اور فقہ کی بعض کتابیں دوبارہ مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ ان تینوں اساتذہ عظام کے طریقِ تدریس سے اپنی سمجھ کے مطابق فیض یاب ہوا، لیکن افسوس ہے، میں خدمتِ تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ درسی کتابیں آج سے تقریباً پون صدی پہلے پڑھی تھیں اور بڑی محنت سے یہ مشکل مرحلہ طے کیا تھا۔ ستر سال کی طویل مدت گزرنے کے بعد میرے ذہن میں آتا ہے کہ اگر کسی موضوع کی کوئی کتاب اچھی طرح مطالعہ کر کے پڑھانے کا موقع ملے تو ان شاء اللہ یہ منزل طے کرنے کے لیے اللہ کامیابی عطا فرمائے گا۔ تعلیم کے معاملے سے مطلع ہونے کے بعد آئیے تحریر و نگارش کی طر ف۔ میرے قلم کی تربیت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور زیادہ تر مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ کی نگرانی میں ہوئی۔ سچی بات یہ ہے میں اپنے طور پر کچھ بھی نہیں ۔ مجھ پر میرے اللہ کا خاص کرم ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ان اصحابِ فضل سے فیض یاب ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوا۔ سوال: دینی تعلیم کی طرف رجحان کا سبب کیا بنا؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: دینی تعلیم کی طرف رجحان دادا مرحوم کی وجہ سے ہوا۔ ان کا اسمِ گرامی حکیم محمد تھا۔ وہ بہت نیک بزرگ تھے۔ فجر کی نماز کے لیے مجھے مسجد میں لے جاتے تھے۔ نماز کے بعد باقاعدہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے، مجھے بھی تلاوت کا حکم دیتے اور میں تلاوت کرتا۔ انھوں نے بہت سے بچوں کو قرآنِ مجید پڑھایا اور مولوی رحیم بخش فیروز پوری مرحوم، جو لاہور کی چینیاں والی مسجد کے امام و خطیب تھے، کی تصنیف کردہ ’’اسلام کی کتاب‘‘ پڑھائی، جس کا نام ’’اسلام کی کتاب‘‘ پہلی جلد سے ’’اسلام کی کتاب‘‘ چودھویں جلد تک ہے۔ دادا مرحوم اس کتاب کی پانچویں جلد تک پڑھایا کرتے تھے۔ سوال: آپ کی تربیت اور تعلیم میں مرکزی کردار کس کا ہے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میری تعلیم و تربیت میں اوّلین کردار میرے دادا حکیم محمد مرحوم کا ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت کی مختلف منزلیں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی نگرانی میں طے ہوئیں ، جس کا سلسلہ رسمی تعلیم کے بعد بھی جاری رہا اور میں نے حتی الامکان ان کے ارشادات پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ ماضی کے اس تربیتی دور کو میں اپنے لیے بہترین دور قرار دیتا ہوں ، جس کی بنیاد پر مستقبل کی چھوٹی سی عمارت تعمیر ہوئی اور مجھے اپنی محدود معلومات کے مطابق کچھ قلمی خدمت سرانجام دینے کے مواقع میسر آئے۔ اللہ کامجھ عاجز پر یہ خاص کرم ہے۔
Flag Counter