Maktaba Wahhabi

469 - 924
نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۳ء کو اپنی ادارت میں امرتسر سے جاری کیا تھا۔ اس کا آخری شمار ۱۳؍ اگست ۱۹۴۷ء کو چھپا۔ اس اخبار نے ۴۴ سال عمر پائی۔ اس کا ایک مستقل عنوان ’’ملکی مطلع‘‘ تھا۔ اس میں وہ ملکی سیاسیات کو موضوعِ بحث بناتے تھے۔ مولانا محمد اکرم خان اور ان کے اخبار روزنامہ ’’آزاد‘‘ کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ان کا ایک ہفت روزہ اخبار ’’محمدی‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ ’’سیوک‘‘ اور ’’زمانہ‘‘ بھی ان کے اخبار تھے، جو بنگلہ زبان میں کلکتہ سے نکلتے تھے، ان اخبارات کا شمار تحریکِ پاکستان کے حامی اخبارات میں ہوتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولانا محمد اکرم خان کلکتہ سے ڈھاکا چلے گئے تو یہ اخبار اُن کے ساتھ گئے۔ چوہدری خلیق الزمان کی وفات کے بعد انھیں پاکستان مسلم لیگ کا صدر بھی منتخب کیاگیا تھا۔ مولانا محمد اکرم خان نے نوے سال سے زیادہ عمر کو پہنچ کر ۱۸؍ اگست ۱۹۶۸ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی۔ جس مسلم صحافت کا زاویۂ فکر صرف آزادیِ ہند کی حمایت اور قیامِ پاکستان سے اختلاف تھا، وہ اگرچہ تعدادمیں کم تھی، تاہم مضبوط صحافت تھی۔ اس میں کلکتے کا روزنامہ ’’ہند جدید‘‘ بھی شامل تھا، جو مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کا اخبار تھا۔ پھر بجنور کا سہ روز ’’مدینہ‘‘ بھی اس زمرے میں آتا تھا۔ اس کے منصبِ ادارت پر مختلف اوقات میں ملک نصراللہ خان عزیز اور ابو سعید بزمی وغیرہ متعدد مشہور صحافی فائز رہے۔ اخبار ’’مدینہ‘‘ کے مالک کا نام محمد مجید حسن تھا۔ پھر لاہور کا سہ روزہ ’’زم زم‘‘ جس کے ایڈیٹر محمدعثمان فار قلیط تھے، ایک خاص رنگ کا اخبار تھا۔ اس کے ایڈیٹر بڑے احتیاط سے مدلل اداریے لکھتے تھے۔ اس کے مالک و مینجر منشی عبدالرحیم صاحب تھے۔ اس کا دفتر اُردو بازار میں تھا، جسے اس زمانے میں موہن لال روڈ کہا جاتا تھا۔ روزنامہ ’’آزاد‘‘ کا شمار بھی اسی گروہِ صحافت میں ہوتا تھا، جس کے ایڈیٹر شورش کاشمیری تھے۔ اور بھی متعدد اخبارات و جرائد تھے۔ میں سمجھتا ہوں غیر مسلم اخبارات مثلاً ملاپ، ویر بھارت، پرتاپ، اجیت، پنجابی کا روزنامہ ’’اکالی‘‘ جو گیانی شیر سنگھ کی ادارت میں نکلتا تھا، اس اعتبار سے یہ سب اخبارات تحریکِ پاکستان کے حامی تھے کہ نہایت گھٹیا طریقے سے پاکستان اور اس کے راہنماؤں پر تنقید کرتے تھے، جس سے سنجیدہ ذہن کے غیر مسلم بھی نالا ں تھے اور یہ سب چیزیں پاکستان کے حق میں جاتی تھیں ۔ پھر یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ خود پٹیل، گاندھی اور پاکستان کے مخالف، اس کے قیام کی حمایت پر اتر آئے تھے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ تحریکِ پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں ’’ہندو پریس‘‘ یا ’’ہند و اخبارات‘‘ کے الفاظ استعمال فرمایا کرتے ہیں ، لیکن میں نے ’’غیر مسلم اخبارات‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سکھ بھی مسلمانوں کے سخت مخالف اور تحریکِ پاکستان کے خلاف تھے۔ ’’اجیت‘‘ سکھوں کا اخبار تھا، ’’اکالی‘‘ سکھوں کا اخبار تھا اور انھیں تحریکِ پاکستان کا لفظ تک سننا گوارا نہ تھا۔ مسلمانوں کو زیادہ تر سکھوں نے قتل کیا اور ہم نے
Flag Counter