Maktaba Wahhabi

44 - 924
کی تہذیبی شناخت تھے۔ (4)۔ ان کی عملی تربیت کی ابتدا ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور سے ہوئی تھی۔ ’’الاعتصام‘‘ جماعت اہلِ حدیث پاکستان کا قدیمی ترجمان ہے۔ اس کے مندرجات کتاب و سنت کی تعلیمات کے آئینہ دار اور ادبی چاشنی سے لبریز ہوتے ہیں ۔ ’’الاعتصام‘‘ اب بھی زندہ ہے اور تادیر قرآن و سنت سے ماخوذ فکری رشحات بکھیرتا رہے گا۔ ان شاء اللّٰہ ۔ (5)۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے تاریخ اہلِ حدیث و رجالِ حدیث پر تحقیقی اور بلند پایہ کتب لکھ کر مسلمانانِ پاک و ہند کی ذہنی نشاۃِ ثانیہ کے اولین معمار حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حضرت مولانا محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانامحمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ و دیگر اکابر کے مشن سے آگے کا کام کیا۔ (6)۔ فردِ واحد کی حیثیت میں ایک طویل عرصے تک علم و ادب کی خدمت کر کے ثابت کر دیا کہ کسی ایک مقصد کی لگن کسی فردِ واحد سے بھی وہ کام لے سکتی ہے، جو بڑے بڑے اداروں اور انجمنوں کے امکان میں بھی نہیں ہوتا۔ (7)۔ دنیا میں خال خال ہی کوئی ایسی شخصیت ملے گی جس نے تمام عمر علم و تحقیق کی وادی میں غوطہ زن ہونے اور صحافت کے میدان میں آبلہ پائی کرتے گزار دی ہو۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوا، وہ علم و تحقیق اور ادب و صحافت کے شناور نکلے اور تمام عمر اسی دشت کی سیاہی میں گزار دی۔ (8)۔ حضرت ممدوح گرامی مرحوم نے اپنا تمام تحریری کام اُردو زبان میں کیا۔ اس لحاظ سے اُردو زبان یقینا خوش نصیب ہے کہ انھیں مولانا جیسا زیرک ادیب، ادیب گر، وفا شعار محقق، پُرخلوص نقاد اور عملی راہنما ملا۔ (9)۔ ان کی تحریروں سے لوگوں کو اصلاح اور فلاح کا راستہ ملتا ہے۔ (10)۔ مرحوم کی جماعتی و تنظیمی زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کی سر بلندی کے لیے تھی، اس لحاظ سے وہ عنداللہ اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ ان شاء اللّٰہ ۔ مولانا کی دائمی مفارقت پوری ملتِ اسلامیہ بالخصوص جماعت اہلِ حدیث اور دیگر علمی و ادبی اداروں اور انجمنوں کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔ مورخِ اہلِ حدیث رحمہ اللہ سے دلی عقیدت کا اظہار صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ان کے نیک مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہا جائے۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین و کتب کو شائع کیا جائے، تاکہ ان کا علم و عرفان پھیلے اور معاشرے میں پھیلی فرقہ واریت و منافرت کے دبیز پردے چھٹ جائیں ۔ اس مختصر تمہید کے بعد آئیے اب پڑھتے ہیں وہ مضامین اور مقالات جو اہلِ فکر و نظر نے مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھے ہیں ۔ جب کبھی اہلِ وفا یاد کریں گے مجھ کو جانے کیا کیا میری روداد کے عنوان ہوں گے
Flag Counter