Maktaba Wahhabi

390 - 924
اور بلند پایہ محقق ہیں ۔ وہ مستند عالمِ دین بھی ہیں ۔ ان کی زندگی کا طویل حصہ صحافت میں بسر ہوا۔ انھوں نے ہر طرح کے مسائل پر لکھا ہے، ان کے موضوعات و مباحث کا دائرہ ادب و سیاست، تاریخ و تعلیم، سیرت و سوانح، مذہب و صحافت اور اس کے مختلف گوشوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی تحریروں میں معلومات اور علمی نکات کی فراوانی ہوتی ہے۔ ان کے قلم اور زبان، دونوں سے لطائف کے پھول جھڑتے ہیں ۔ وہ تحریر میں افکار کے موتی پروتے ہیں ۔ ان کی تحریرات متن کے حسن اور اسلوبِ نگارش کی رنگینی سے آراستہ ہوتی ہیں ۔ افکار و معانی کا طلسم قاری کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ ان کے گلشنِ زار الفاظ و مضامین کا زائر و سائر ایک بار کا دیکھا، دوبارہ دیکھنے کی ہوس کا نعرہ لگاتا ہے اور اس کے سحرِ جلال سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ مختصر اور مفصل دونوں طرح کی تحریریں لکھنے پر قادر ہیں ۔ ان کے اختصار میں اعجاز اور تفصیل میں دل کشی کی خوبی موجود ہوتی ہے۔ وہ بات سے بات پیدا کرتے اور مضامین و مباحث کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں ، لیکن تحریر و نگارش کی رنگینی، بیان کی طوالت اور واقعات کی تفصیل کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ان کی تحریر و نگارش کی سحر انگیزیاں اور افکار و معانی کی قیامت خیزیاں ان کی تمام تحریروں اور تصنیفوں میں موجود ہیں ۔‘‘ نوائے وقت لاہور کے ایک معروف کالم نگار، ادیب و صحافی صاحب زادہ خورشید گیلانی تھے، جو وفات پا چکے ہیں ۔ مسلکی اعتبار سے بریلوی حنفی تھے۔ گیلانی صاحب نے اپنی کتاب ’’رشکِ زمانہ لوگ‘‘ میں ’’گم نام مگر بلند مقام‘‘ کے عنوان سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے متعلق لکھا ہے: ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ اور ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ دراصل مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شگفتہ، شائستہ اور ان کے منفرد اسلوبِ نگارش کی نمایندہ کتابیں ہیں ، جنھیں پڑھتے ہوئے نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے۔ سبک لہجہ اور رواں اسلوب۔ جنھوں نے بھٹی صاحب کو دیکھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے، ان کی تین باتیں انھیں ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ ریاست فرید کوٹ کے سکہ بند ’’پنجابی‘‘ ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ وہ ’’مولانا‘‘ ہیں اور تیسری یہ کہ وہ مسلک کے اعتبار سے باعمل ’’اہلِ حدیث‘‘ ہیں ، لیکن اردو اتنی صاف اور سلیس لکھتے ہیں کہ ان پر اہلِ زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ کہیں گرہ نہیں ، اغلاق نہیں ، آورد نہیں اور عیب نہیں ، اور اس سے بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ’’مولانا‘‘ تو پکے ہیں ، یعنی صحیح معنوں میں عالم، قرآن و حدیث، سیرت، تاریخ و فقہ پر مکمل عبور، مگر عبا پوش ہیں نہ دستار بند۔ نہ تسبیح بدست اور نہ صافہ بداماں ۔ نہ لوٹا ساتھ رکھتے ہیں اور نہ عصا ہاتھ میں تھامتے ہیں ۔ مناسب اور موزوں ڈاڑھی، عام شہریوں جیسا لباس اور ساندہ میں دوسرے محلے داروں کی طرح رہایش اور بود و باش۔ ان کے ماتھے پر علم کی خشونت نام کو نہیں ۔ آواز بھاری ضرورہے مگر اس پر درشتی طاری نہیں ہونے دیتے۔ ہر لاحقے سابقے کے بغیر صرف اپنے نام پر اکتفا کرتے ہیں ۔
Flag Counter