Maktaba Wahhabi

369 - 924
ہیں ۔ پھر معاشرے میں اہلِ علم کی بے توقیری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے یہ شعر پڑھا: عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ کہنے لگے: ہماری عادت ہو چکی ہے کہ ہم فوت شدگان پر ہی لکھتے ہیں اور پھر کئی لکھاری فوت شدگان کی تعریف کرتے ہوئے غلو سے بھی کام لے جاتے ہیں ۔ مجھے فوت شدگان کے بارے میں لکھنے پر اعتراض نہیں ، تاہم ہمیں زندہ شخصیات پر بھی لکھنا چاہیے۔ اس سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہوتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ان کے کام میں نکھار بھی پیدا ہوتا ہے۔ میں نے ان کی زبانی علما کے حالات سننے کے لیے چند علما کے نام لیے تو کہنے لگے: ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ لے جاؤ اور ان کے حالات پڑھ لو۔ میں نے عرض کی کہ میں اس کا مطالعہ کر چکا ہوں ، آپ نے کئی جگہ پر علما پر تنقید بھی کی ہے، مگر ان کے داخلی حالات کا ذکر نہیں کیا۔ فرمانے لگے: میں نے ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ لکھی ہے، تم ’’بزمِ درد منداں ‘‘ لکھ دو! بھٹی صاحب رحمہ اللہ تھوڑا اونچی آواز سے بول رہے تھے تو معلوم ہوا کہ ان کو ثقلِ سماعت کا عارضہ لاحق ہے اور وہ یہ سمجھ کر اونچا بولتے تھے کہ شاید سننے والا بھی اونچا سنتا ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی، جس میں مَیں نے ان کے اندر مسلکی محبت اور تاریخ سے دلچسپی بڑی گہرائی سے محسوس کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین
Flag Counter