Maktaba Wahhabi

362 - 924
سعید احمدبھٹی جو انتہائی الفت میں انھیں ابو جی کہتے تھے، ان سے اور ان کی اولاد سے بھی ماشاء اللہ محبت اور عقیدت کا تعلق موجود ہے۔ ان کی صاحبزادی ثریا بی بی ہماری پھوپھو جان ہیں اور وہ اپنی ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے تک اپنی والدہ کے ہمراہ ہمارے والدین کے پاس ہی چھانگا مانگا میں رہتی رہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ پر بہت سے قلم کاروں نے طبع آزمائی کی اور ملکی جرائد و صحائف میں خوب لکھا گیا۔ مجھے محترم سعید احمد بھٹی صاحب نے بتایا کہ یہ تقریباً سن ۲۰۰۰ء کی بات ہے کہ ہمارے درمیان ’’محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے متعلق بات ہوئی اور تب سے ہی اس کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے۔ اب اس کی تمام تر ذمے داری جناب سعید احمد بھٹی صاحب پر ہی ہے۔ مکہ مکرمہ میں میرے بھائی وکیل الجامعہ حافظ عتیق الرحمن(العتیق ٹریول والے)اور جناب قاری عنایت اللہ ایک ہی مکان میں اوپر نیچے کی منزلوں میں اپنے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ قیام پذیر تھے کہ راقم اور والد گرامی قدر جناب ملک بشیر احمد بھی زیارتِ حرمین سے شرف یاب ہونے کے لیے سر زمین مبارکہ میں تھے کہ اس گھر میں مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے کئی نشستیں رہیں ، انھیں نشستوں میں انھوں نے میرے والد صاحب حفظہ اللہ کو ترغیب دلائی کہ وہ اپنے استاد محترم مولانا محمد یوسف کلکتوی رحمہ اللہ پر ضرور قلم اٹھائیں اور پھر مجھے دکھائیں ، میں بھی اس پر کچھ لکھ دوں گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ والد گرامیِ قدر جناب ملک بشیر احمد نے اس قرض کو بہت جلد چکا دیا۔ راقم کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عنایت فرمائی کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ پر کچھ تحقیق کر کے مزید مواد شامل کتاب کیا اور ماشاء اللہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے حسبِ وعدہ کتاب کا دیباچہ تحریر فرمایا، جس کا راقم نے طباعت کراتے ہوئے باقاعدہ ٹائٹل پر بھی ذکر کیا ہے۔ الحمدللہ اس کتاب ’’علامہ محمدیوسف خان کلکتوی رحمہ اللہ ‘‘کا مکمل اِڈیشن مارکیٹ میں پہنچ کر کئی ایک تشنگانِ علم کی پیاس کو بجھانے کا باعث بنا۔ دعا ہے اللہ کریم مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے درجات بڑھاتے ہوئے انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے۔ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انھیں اپنا جوار نصیب کرے۔ آمین! یا رب العالمین۔ وہ صورتیں الٰہی کس دیس میں بستی ہیں اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں
Flag Counter