Maktaba Wahhabi

338 - 924
میرے ہاتھ میں آنے کے لیے بے قرار ہے۔ میرے درد کو شاید یہ خود میں سموئے بیٹھا تھا، غم و اندوہ کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹے ہیں ، مگر آنسو الفاظ کی صورت میں اس کے نکل رہے ہیں ۔ ان کی شخصیت پہ کچھ لکھتے ہوئے آنکھیں نم، دل غمگین اور ہاتھ کانپ رہے ہیں ، لیکن قلم ہے کہ مسلسل مچل رہا ہے۔ قلم کے قرطاس کو چھوتے ہی یادوں کے بند دریچے کھلتے جا رہے ہیں ۔ ان کی بولتی آنکھیں ، مسکراتا چہرہ، میانہ قد، سست رو چال، سادہ مگر صاف ستھرا لباس، سادگی میں لپٹی ہر ادا، کانوں میں رس گھولتی کمزور اور نحیف مترنم آواز، بلا توقف علم کے موتی بکھیرتا ان کا قلم، اس قلم کو چلاتے اُن کے ماہر مگر کانپتے ہاتھ، ان ہاتھوں کی راہنمائی کرتا قوی حافظہ، اس حافظے کے تخلیق کردہ علم کے وہ جواہر پارے جو دل و دماغ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں ، میدانِ تحریر کے شہسوار ایسے کہ ہم عصر اہلِ قلم اور دانشور بھی عش عش کر اُٹھیں ، خاکہ نگاری کی یہ انتہا کہ پورے کا پورا انسان ہی سامنے لاکھڑا کریں ۔ الغرض ان کا تصور و نقشہ لوحِ قلب و دماغ پر ایسا مر تسم ہوچکا ہے، گویا وہ بقیدِ حیات ہوں ، ان کی خندہ پیشانی سے ملنے کی ادا اور ہشاش بشاش چہرے کی وہ تصویر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مہمان نوازی میں سنتِ ابراہیمی پر چلنے والے اور اخلاقِ حسنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو، گمنام ایسے کہ اپنے تک ان کے مقام سے ناآشنا اور نامور ایسے کہ انھیں جانے بغیر تاریخِ اہلِ حدیث ادھوری ٹھہرے۔ یہ میرے محترم بزرگ، میرے راہنمائے تحریر اور مشفق استاد، مورخِ اہلِ حدیث، مصنف کتبِ کثیرہ، آبروئے قلم و قرطاس، غزالیِ دوراں ، عظیم دانشور، محققِ دوراں ، جنگ آزادی کے غازی، آزادی کی خاطر پابندیِ سلاسل سے آشنا، سیاست و صحافت کے منصہ شہود پر ابھرنے والے درخشندہ ستارے، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص، مولانا داود غزنوی، مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا حنیف ندوی رحمہم اللہ کے سایہ شفقت میں ۱۵ سال سے زائد کا حسین عرصہ گزارنے والے، یہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہیں ۔ محبت و الفت، چاہت و اخوت، اخلاص و مروت، پیار و اظہار کے امتزاجِ کامل کے وہ پیکرِ مجسم تھے، ان میں ہر ایک کے لیے بلا امتیاز وفا کی چاشنی کا عنصر ہر آن نمایاں و غالب تھا، جن کی رفاقت میں گزرے ہوئے وہ حسین اور یادگار لمحات میرے لیے باعثِ صد افتخار ہیں ۔ ان پر ہزاروں مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹے، غربت و افلاس نے کمر توڑ ڈالی، مگر مجال ہے کہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کیا ہو، ہاں اگر کشکول لیے کسی کے در پہ دستک دی تو فقط اہلِ علم اور اسلاف کی حیات کے مہکتے گوشوں کے لیے، تاکہ وہ ان کے تذکار کو تاریخ و صفحات میں سمو کر اس امانت کو حیات جاوداں کے سپرد کر دیں ۔ تن تنہا بنا کسی کی مالی معاونت کے ایک ادارے سے بڑھ کر ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی دل و دماغ پر ایک سوال ہتھوڑے کی طرح برسنے لگا کہ ’’کیا تاریخ بھی کبھی مرتی
Flag Counter