Maktaba Wahhabi

33 - 924
خطوط ’’الاعتصام‘‘ اور ’’المعارف‘‘ کی فائلوں میں بھی موجود ہیں ۔ میں نے کوشش کرکے ان تمام خطوط کا مجموعہ ’’مشاہیر کے خطوط بنام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کے نام سے ترتیب دینے کا کام شروع کیا ہے، جو مکمل ہونے کے بعد کسی ’’علمی ارمغان‘‘ سے کم نہیں ہوگا۔ إن شاء اللّٰہ ۔ 4۔مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے انٹرویوز: مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں جن اخبارات و جرائد کو انٹرویوز دیے تھے، میں نے انھیں ایک خاص اسلوب و ترتیب کے ساتھ مرتب کر کے ایک جامع کتاب کی شکل دے دی ہے۔ ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کی اشاعت کے آگے پیچھے یہ کتاب بھی مولانا رحمہ اللہ کے نیاز مندوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ إن شاء اللّٰہ ۔ 5۔خطبات مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ: مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں مختلف دینی مدارس کی دعوت و تحریک پر درس و خطاب کے لیے بلائے جاتے تھے۔ ان کی گفتگو سادہ، مگر دل نشین ہوتی تھی۔ وہ صرف کتابی باتیں ہی نہیں دہراتے تھے، بلکہ اسلافِ کرام کے چشم دید واقعات سناتے تھے، جس سے ان کی روشن زندگی کے اَچھوتے پہلو سامنے آجاتے۔ اس سے نوجوان نسل کو حقیقی انقلابی نظریات کا درس ملتا اور اُن کے فکری مغالطوں کا بہ احسن طور رد ہوتا۔ میں نے بتوفیقِ ایزدی ان خطبات اور تقاریر کو جمع کر نے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ اگر کسی صاحب کے پاس ان کی مزید آڈیو ویڈیو تقاریر یا اس کے نوٹس ہوں تو وہ مجھے اس کی ضرور اطلاع دیں ، تاکہ نیکی اور خیر کے اس کام میں ہم سب برابر کے شریک ہوسکیں ۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی وقیع شخصیت کے پیشِ نظر ان پر علمی اور ادبی رنگ میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہرینِ علم و ادب اور اصحابِ فکر و فن میری سرپرستی فرمائیں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ 6۔محسنِ اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے میرا تعلق: (بیتے دنوں کی چند بکھری یادیں ) مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سادگی، بے نفسی اور خلوص و وفا کا ایک ایسا گلدستہ تھے، جس کی معطر خوشبو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں آج بھی مہک رہی ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے میرا ان سے گہرا تعلق تھا۔ وہ ادارہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ کی مجلسِ ادارت کے بنیادی رُکن تھے اور اس کی دعوتی تگ و تازکی تعریف کرتے تھے۔ وہ اس کے دعوتی و تبلیغی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔ اس کتاب میں مَیں نے ان کے ساتھ اپنے تعلقات، ان کے مشفقانہ رویوں اور مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ سے ان کی وابستگی کی وضاحت کی ہے۔ اصل میں یہ موضوع بھی زیرِ نظر ’’ارمغان‘‘ ہی میں شامل تھا، لیکن کمپوزنگ کے بعد پتا چلا کہ اس کے ڈیڑھ سو صفحات بن گئے ہیں ، چنانچہ
Flag Counter