Maktaba Wahhabi

328 - 924
احوال کے ساتھ ساتھ ایک ایسے مضمون نگار کا بھی پردہ چاک کیا ہوا تھا، جس نے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ کے مضمون ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘ کو مکمل اپنے نام کے ساتھ ’’الاعتصام‘‘ میں شائع کروایا تھا۔ میں نے مضمون نگار کو فون کیا تو انھوں نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے کچھ کاغذات ملے تھے، ان میں یہ مضمون بھی تھا۔ اس مضمون کے پہلے اور آخری صفحات نہیں تھے۔ مجھے یہ مضمون بہت اچھا لگا، اس لیے میں نے ارسال کر دیا۔ باقی یہ میری غلطی ہے کہ میں یہ وضاحت نہیں کر سکا کہ یہ مضمون میں نے کہاں سے اخذ کیا ہے۔‘‘ یہ واقعہ اہلِ قلم کے لیے باعثِ عبرت ہے۔ ہمارے اکثر علمائے کرام اس بات کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے کہ جہاں سے وہ عبارت نقل کرتے تھے، اس کا حوالہ لازمی دیا کرتے تھے۔ اس گئے گزرے دور میں آج بھی الحمدللہ کچھ ایسے اساطینِ علم و فضل موجود ہیں ، جو حوالوں کا خاص طور پر التزام کرتے ہیں ۔‘‘ بات محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی لائبریری کی ہو رہی تھی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ غرض موصوف کی لائبریری دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ اہلِ علم کا ورثہ یہی کتابیں تو ہوتی ہیں ۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ مکتبہ قدوسیہ کے مالک برادرم جناب عمر فاروق قدوسی، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تازہ تصنیف ’’حیات و خدمات مولانا احمد الدین گکھڑوی رحمہ اللہ ‘‘لے کر وارد ہوئے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اپنی تازہ تصنیف دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی(ان کی خوشی دیدنی تھی)انھوں نے محترم عمر فاروق قدوسی کو پر خلوص دعاؤں سے نوازا۔ مغرب سے تھوڑی دیر پہلے راقم نے مکرم بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے اجازت طلب کی۔ بڑے پیار و خلوص بھرے انداز میں فرمانے لگے: ’’آج رات ہمارے ہاں بسر کریں ، کل چلے جانا۔‘‘ ناچیز نے عرض کیا کہ، صبح مرکز لازماً پہنچنا ہے، تاکہ تدریس کا ناغہ نہ ہو جائے۔ بالآخر وہ بابرکت دن(۲؍ اپریل ۲۰۱۱ء)بھی آ پہنچا۔ راقم نے لاہور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے برادر گرامی جناب سعید احمد سے رابطہ کیا۔ انھوں نے فرمایا: ’’ہم تقریباً دس بجے فیصل موور بس کے ذریعے ملتان کی طرف رختِ سفر باندھ رہے ہیں ۔‘‘ ناچیز دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ آج ہمارے ہاں ایک اہم شخصیت تشریف لارہی ہے۔ چنانچہ ملتان کے معروف قلمکار مولانا یاسین شادؔ حفظہ اللہ کو مورخِ اہلِ حدیث کی آمد کی اطلاع کر دی۔ تین بجے کے قریب ہم جنرل بس اسٹینڈ پہنچ گئے۔ ہم نے گرم جوشی سے مورخ العصر کا استقبال کیا۔ گرامیِ قدر بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ان کے برادرِ عزیز سعید احمد بھٹی بھی تھے۔ فیصل موور بس اڈہ سے لے کر مرکز ابن القاسم تک کار میں مختلف موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جیسے خوش طبع اور شگفتہ مزاج عالمِ دین تھے تو ویسے ہی محترم یاسین شادؔ صاحب بھی بذلہ سنج اور لطیفہ گو طبیعت کے مالک ہیں ۔ راقم دونوں حضرات کی شیرینی گفتار سے محظوظ ہوتا رہا۔ مرکز ابن القاسم آمد: تھوڑی دیر بعد ہم مورخِ اہلِ حدیث کو لے کر شہرِ ملتان کے مشہور ادارے مرکز ابن القاسم
Flag Counter