Maktaba Wahhabi

324 - 924
کے ساتھ ہی مزید نرمی آگئی اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ رحمھما اللّٰہ رحمۃ واسعۃ وغفر لھما مغفرۃ کاملۃ۔ حال احوال پوچھنے کے بعد مجھ سے مشاغل و مصروفیات پوچھنے لگے اور کہنے لگے کہ جو کام آپ نے شروع کیا ہے، اس کو عملی جامہ پہنا کر جماعت اہلِ حدیث کو تحفہ کی صورت میں پیش کریں ، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، کیوں کہ اس چیز کے لیے بہت ہمت، برداشت اور صبر چاہیے۔ آپ اپنے بزرگوں کے احوالِ زندگی مرتب کر رہے ہیں ، جو انتہائی ضروری امر ہے۔ پھر فرمانے لگے: حافظ صاحب رحمہ اللہ سے میرا تعلق دوستانہ تھا، آپ اکثر و بیشتر لاہور تشریف لاتے تو بالخصوص حکیم ہدایت اللہ بٹالوی رحمہ اللہ(یونانی دواخانہ)اور مولانا محمد رمضان رحمہ اللہ کے ہاں ضرور جاتے۔ اسی طرح شیش محل روڈ پر مکتبہ سلفیہ میں حاضری ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ میں اس وقت ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر تھا اور یہ اخبار مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کا ترجمان تھا۔ میرا کام چونکہ ایڈیٹر کا تھا تو میں اکثر و بیشتر کانفرنسوں ، جلسوں میں خبروں کو اکٹھا کرتا تھا، جن کو اخبار کی زینت بنانا ہوتا تھا۔ نانا جی رحمہ اللہ کے حوالے سے بہت سی باتیں بتاتے گئے اور ساتھ ہی خاموش ہو گئے اور گہری سوچ میں چلے گئے۔ میں نے از روئے ادب کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اور چہرے کے تاثرات کو واضح طور پر محسوس کر رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ عظیم لوگوں کا آپس میں قلبی اور ایمانی تعلق کسی نہ کسی انداز میں قائم رکھنا ان کی عظمت کا شیوہ ہوتا ہے۔ میں نے سوال کیا: شیخِ محترم! مجھے آپ اپنی زندگی سے متعلق آگاہ فرمائیں کہ آپ کی روز مرہ مصروفیات کیا ہیں ؟ میں نے یہ سوال اس لیے کیا کہ جب آپ تشریف لائے تھے، تو آپ رحمہ اللہ کے ہاتھ پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور قلم آپ کے ہاتھ میں تھا، جسے آپ نے میز پر رکھ دیا۔ اس پسِ منظر میں بے اختیار پوچھ بیٹھا کہ آپ کتنے صفحات یومیہ لکھ لیتے ہیں ؟ فرمانے لگے کہ آج کل تو میں بیمار رہتا ہوں اور ہاتھ پر چوٹ لگی ہوئی ہے تو بہ مشکل پچاس سے ستر صفحات ہی لکھ پاتا ہوں ، ورنہ اس سے پہلے دو سے تین سو صفحات یومیہ لکھ لیتا تھا۔ الحمد للّٰہ علی ذلک۔ لکھنے لکھانے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ میرے استفسار پر گویا ہوئے: شروع ہی سے عادت تھی کہ جو بھی معلومات دستیاب ہوتیں ، لکھ لیتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ عادت زندگی کا جزوِ لا ینفک بن گئی۔ اسی اثنا میں کھانا آگیا۔ فرمایا: میں تو مریض ہوں ، کھانا کھا چکا ہوں ، یہ آپ کے لیے ہے۔ میں نے کھانا شروع کیا تو انتہائی شفقت سے فرمانے لگے کہ عجیب بات ہے، آپ کے بزرگ تو ماشاء اللہ بہت خوش خوراک انسان تھے، لیکن لگتا ہے آپ کو مچھلی پسند نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا: شیخ محترم! میں شکل و صورت میں ان سے مشابہت ضرور رکھتا ہوں ، لیکن علم و عمل و دیگر معاملات میں بہت پیچھے ہوں اور آپ جیسے عظیم بزرگوں کا خادم بننا چاہتا ہوں ۔ ارشاد ہوا: ’’برخوردار! اللہ آپ کو دین کا خادم بنائے۔‘‘ اسی اثنا میں ، میں نے پوچھ لیا کہ آپ کی بہت سی کتابیں زیرِ مطالعہ رہی ہیں اور رہتی ہیں ، لیکن ایک چیز جو الگ محسوس ہوئی کہ آپ نے اپنا اسلوبِ تحریر اپنے ہمہ جہت پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر کیسے سمیٹا؟ کہنے لگے کہ ’’انسان بہتر
Flag Counter