Maktaba Wahhabi

312 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کو تصنیف و تالیف کے ساتھ جنون کی حد تک لگاؤ تھااور آپ رحمہ اللہ اپنے اس جنون کی تسکین کی خاطر بڑے بڑے عہدوں کو خاطر میں نہ لائے۔ ایک مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور بھٹو دور کے سابق وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی نے خود بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے دفتر ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور میں آکر آپ سے کونسل کی رکنیت قبول کرنے کے لیے اصرار کیا، لیکن بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفی وتالیفی مصروفیت کے پیشِ نظر اس عہدہ سے معذرت کر لی، حالانکہ یہ وہ عہدہ ہے، جس کے حصول کے لیے لوگ واسطے وسیلے لڑاتے ہیں اور یہ عہدہ مل جائے اور اس کی مدت مکمل ہو رہی ہواور اس مدت میں توسیع نہ کی جائے تو لوگ مرنے مارنے اور بھرے اجلاس میں ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں اور ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں ۔ جی ہاں ! ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز بدھ اسلام آباد میں منعقد ہونے والا اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس اس بات پر شاہد عدل ہے، جب ایک رکن کی مدتِ رکنیت مکمل ہو گئی تھی اور اس میں توسیع کا فیصلہ نہیں کیا گیا تو وہ رکن حرکاتِ سیئہ کا مرتکب ہوا اور علی رؤس الخلائق علما کے لیے جگ ہنسائی کا ذریعہ بن گیا۔ ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کے قومی روزناموں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ۔ اسی طرح ۱۹۷۲ء میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو شرعی عدالت کی طرف سے اطلاع آئی کہ وہ آپ کو اہم شرعی مسائل میں مشیر مقرر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس سے میرے تصنیفی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ تصنیف و تالیف کی خاطر بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی یہ قربانیاں رنگ لائیں اور آپ کے رواں قلم سے تقریباً پچاس ہزار صفحات اردو زبان میں تحریر ہوئے اوریہ قومی زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ کویت میں اقامت گزین اور وہاں کی جماعت اہلِ حدیث کے سر پرست مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے کویت کے ایک ماہنامہ مجلہ ’’أمتي‘‘ کے جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں عربی میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے متعلق مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا: ’’فضیلۃ الأستاذ محمد إسحاق بھتی مورخ القارۃ الھندیۃ الباکستانیۃ الشھیر‘‘ اس مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’میری انتہائی خوش بختی ہے کہ میں اس عظیم مصنف، نامور صحافی اور مشہور مورخ کے متعلق چند سطور لکھ رہا ہوں ، جنھوں نے اپنی تمام تر زندگی تصنیف و تالیف، نشر واشاعت دین اور صحافت میں صرف کر دی۔ انھوں نے بڑی ہمت اور عزمِ صمیم کے ساتھ اپنے گوہر بارقلم سے تقریباً پچاس ہزار صفحات اردو زبان میں تحریر کیے، قرنِ اول سے عصر حاضر(پندرھویں صدی ہجری)تک تین ہزار علما و فضلا کے تراجم و تذکار سپردِ قلم کیا۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ شخصیات کے متعلق باریک سے باریک ترین بات کا بھی کھوج لگا لیتے تھے۔ ایک مجلس میں فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی فرمانے لگے کہ ’’میں نے مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ سے بہت کم مدت پڑھا ہے،
Flag Counter