Maktaba Wahhabi

299 - 924
(2)۔اس کے ساتھ انھوں نے مجھے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حیات، سیتا رام کوہلی(طبع ۱۹۳۱ء)دی۔ دونوں علمی تحفے دیتے وقت وہ سر کو حرکت اور ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہتے رہے… جاؤ، لے جاؤ… لے جاؤ۔ میں نے ان دونوں کو شکریہ کے ساتھ وصول کیا اور اپنے پاس بطور نشانی رکھا ہوا ہے: یہ سینے میں تا زندگانی رہے گا تیرا داغ دل میں نشانی رہے گا ایک زمانے میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث نے لاہور مرکزی دفتر ۱۰۶ راوی روڈ میں علمائے کرام کا انٹرویو وفاق المدارس السلفیہ کے سلسلے میں لیا، انٹرویو لینے والوں میں جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی تھے، اس میں راقم بھی شامل ہوا، میرا انٹرویو انھوں نے لیتے ہوئے سوال کیا۔((طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ))۔ اس حدیث کا کیا حکم ہے؟ عرض کیا:((علی کل مسلمٍ))تک حدیث صحیح ہے اور ’’مسلمۃ‘‘ کے الفاظ مدرج ہیں ۔ کہا: ’’جاؤ ٹھیک ہے۔‘‘ مولانا محترم رحمہ اللہ نے کہیں لکھا ہے کہ ’’فقیر قلم کا مزدور ہے۔‘‘ اس سے ان کی عاجزی نمایاں ہوتی ہے۔ ایک دفعہ فیصل آباد ’’مکتبہ دارِ ارقم‘‘ امین پور بازار تشریف لائے، انھوں نے اس موقع پرامام الہند مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ کے فضائل و محاسن پر گفتگو کی اور ساتھ ساتھ جناب عبدالغفور بی ۔اے(دھرم پال )کا بھی ذکر خیر آگیا، راقم نے عرض کیا: آپ ایک تفصیلی مضمون دھرم پال پر لکھ دیں ، ہم اس کو طبع کروا دیں گے، انھوں نے ہامی بھی بھر لی، ایک دو دفعہ یاد دہانی کے بعد فرمانے لگے، میں کوشش کرتا ہوں ، وقت کم مل رہا ہے، دوسرے کاموں میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا ہوں ، ایک دن ان کے گھر حاضر ہوا، رات وہاں گزاری۔ صبح کے وقت چلتے وقت فرمایا: ’’انتہائی معذرت کہ میں وعدہ پورا نہ کر سکا‘‘، مجھے اس کا بہت افسوس ہے، یہ جملہ انھوں نے تین چار دفعہ دہرایا ۔ جناب مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ ’’الاعتصام‘‘ کے زمانے ہی سے ’’رجال اہلِ حدیث‘‘ وغیرہ پر لکھا کرتے تھے، پاک و ہند کے نامور مورخ، ایڈیٹر، صحافی اور مترجم جناب محترم مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ نے مولانا بشیر صاحب بن مولانا رحیم بخش لاہوری رحمہ اللہ کی تحریک پر جماعت مجاہدین کی ’’سرگزشت مجاہدین‘‘ تحریر کی، جو ۱۸۵۷ء کے مجاہدوں کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ بعض جگہ پر خصوصاً ’’سرگزشت مجاہدین‘‘ میں مولانا مہر مرحوم نے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے مدد لی ہے اور انھوں نے انہی کے نام سے لکھا ہے۔ اس طرح جب کوئی طالبِ علم، خصوصاً ایم اے، یا ایم فل، یا پی، ایچ، ڈی کا آتا توحضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان سے دل کھول کر علمی تعاون فرماتے۔ مجھے یاد ہے، ایک طالب علم ایم اے کا مقالہ ’’قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ‘‘پر لکھ رہا تھا، اس دور میں راقم نے بھی جناب قاضی صاحب رحمہ اللہ پر مواد جمع کرنا شروع کیا تھا، وہ طالبِ علم ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے راقم کی طرف بھیج دیا، طالبِ علم جامعہ سلفیہ فیصل آباد آیا اور اس نے اپنا مدعا ظاہر کیا اور ساتھ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا حوالہ بھی دیا۔ راقم نے جس قدر ہو سکا، اسے مواد بھی دیا اور بعض حوالہ جات کی نشاندہی بھی کر دی۔
Flag Counter